Translate

ہفتہ، 19 اپریل، 2025

یہ قصہ کل رات کا


یہ قصہ کل رات ہی سنا ہے جس نے سنایا ان ہی کی زبانی بیان کر رہا ہوں 

نیو کراچی شفیق موڑ کے پاس 2001 میں ہم نے ایک کرایہ کی جگہ پر نیو فیکٹری کا اسٹرٹ لیا تھا یہ ایک بڑا پلاٹ تھا جس میں تین پورشن پر مختلف فیکٹریز تھی گیٹ سے داخل ہوتے ہی چوکیدار کا روم پھر دو طرف دو فیکٹریز اور سامنے ہماری فیکٹری تھی ہمارے پورشن میں داخل ہوتے ہی سامنے آفس ایک طرف گودام میں کچا مال اور دوسری طرف مشینز لگی ہوئ تھیں۔

اردگرد میں تین طرف خالی پلاٹ تھے اور گیٹ کے سامنے چائے کا ہوٹل اور پان کی دکان تھی۔ 

ہمارا نیا نیا کام تھا تو اکثر وہیں سمپلنگ وغیرہ بنواتے تھے اور اکثر دیر رات تک وہیں بیٹھے رہتے کھانا چائے سگریٹ کے دور بھی چلتے تھے۔ 

ایک رات قریب دس سوا دس پر لڑکے کو کھانا اور چائے سگریٹ لینے بھیجا ہوا تھا کہ اچانک بارش ہو گئ تھوڑی دیر بعد کھانا آگیا تو سب ساتھ مل کر کھانے لگے اسی دوران باتوں باتوں میں لڑکے نے کہا کہ ہماری فیکٹری کی چھت پر شائد چوکیدار کی بیوی یا بیٹی بارش میں لال جوڑا پہنے اکیلی نہا رہی ہے ہم نے اس کو کہا زیادہ مت دیکھنا یہ پٹھان اپنی عورتوں کے بارے میں کافی سخت ہوتے ہیں کچھ غلط سمجھ لیا تو تجھے مار مور کر یہیں کسی خالی پلاٹ میں دفنا دیں گے۔ 

کھانے وغیرہ سے فارغ ہوئے تو بارش بھی رک گئ تھی ہم سب گھر کے لیئے نکلنے لگے گیٹ سے گاڑی نکلنے لگی تو دانستہ نظر وہی چھت کی طرف گئ تو وہاں اس وقت بھی کوئ لال چادر یا دوپٹہ اوڑھے بیٹھا تھا۔ 

دو تین دن گزر گئے بات آئ گئ ہو گئ پھر اچانک ایک بار پھر دن کے وقت بارش شروع ہو گئ اس بار بارش کچھ زیادہ تیز تھی ہمارے پورشن میں گودام والی طرف چھت سے پانی آنے لگا تو ہم نے جلدی جلدی لوڈر سے مال سائڈ میں کروایا اور لڑکے کو چوکیدار کے پاس بھیجا کہ اوپر چھت سے پانی آرہا ہے تو ہم کو اوپر جا کر پلاسٹک بچھانا ہے تاکے پانی اندر نہ آئے مگر وہ لڑکا واپس آکر کہنے لگا کہ چوکیدار تو کہہ رہا ہے کہ اوپر جانے کا کوئ راستہ نہیں آپ خود کسی سیڑھی کا بندوبست کرلیں ہم کو فوراً وہ چھت پر بیٹھی عورت یاد آگئ تو میں خود چوکیدار کے پاس گیا اور اس سے کہا کہ جہاں آپ کی فیملی رہتی ہے ہم اس طرف سے چلے جاتے ہیں۔ 

چوکیدار حیران پریشان کہنے لگا ہماری تو فیملی گاؤں میں ہے چھت پر تو کوئ نہیں رہتا نہ ہی کوئ راستہ ہے تو عورت کہاں سے آگئ ۔۔۔۔ 😦😟

کل قصہ ادھورہ رہ گیا تھا وہ آج پورا کر رہا ہوں 

جیسا کہ کل بتایا تھا کہ چوکیدار نے جب بتایا کہ اوپر چھت کا راستہ نہیں اور کوئ رہتا بھی نہیں وہ سن کر ہم خوفزدہ تو ہوئے مگر بارش کا پانی چھت سے آرہا تھا اس کو روکنا بھی تھا تو برابر پورشن والوں سے سیڑھی لیکر لڑکوں کو بھیجا کہ چھت پر خیال سے جا کر پلاسٹک شیٹ بچھا آؤ وہ اوپر گئے اور واپس آکر بتایا کہ چھت پر کچھ کچرا تھا جس سے پانی جمع ہو کر نیچے فیکٹری میں آرہا تھا۔

وہ دن تو خیریت سے گزر گیا مگر جس عورت کو لال لباس میں دیکھا تھا اس نے دوسرے دن صبح ہی اپنا اثر دکھانا شروع کردیا ہوا ہوں کہ لوڈر صبح باتھ روم گیا تو اس نے باتھ روم میں چیخنا شروع کردیا ہم سب وہاں گئے تو دروازہ اندر سے بند کر کے وہ زور زور سے چیخ رہا تھا کہ وہ عورت باتھ روم کے باہر کھڑی اسے غور رہی ہے ہم نے اسے بتایا کہ کوئ نہیں ہے تم باہر آجاؤ اس نے باہر آکر بتایا کہ دروازہ بند ہونے کے باوجود اسے محسوس ہوا بلکہ اسے نظر آیا کہ وہ عورت اسے دیکھ رہی ہے اس کا پورا جسم سن ہوگیا تھا وہ ہل بھی نہیں پارہا تھا پھر شام کو پھر کسی کو محسوس ہوا جیسے اسے سرد ہوا چھو کر گزری ہو میں مشین کے پاس کھڑا تھا مجھے صاف نظر آیا کہ وہ عورت میرے پیچھے کھڑی ہے اور مجھے جھر جھری سی آگئ جیسے تیسے وہ دن گزرا تو اگلے دن معاملہ زیادہ خطرناک ہو گیا ایک اور لوڈر گودام میں گیا تو اس نے کسی کو اپنے اوپر چھلانگ لگاتے دیکھا وہ ڈر کر پیچھے ہوا تو لوڈنگ کی ٹرالی سے ٹکرا کر اپنا سر پھاڑ بیٹھا اسے کلینک سمجھا کر بھیجا کہ کچھ الٹی بات نہ کرے ورنہ لوگ مزاق بنائیں گے اور پھر گھر چلا جائے۔ اب معاملہ زیادہ خراب تھا تو ہم نے بھی فیکٹری بند کی اور جس بروکر سے یہ جگہ لی تھی اس کے آفس پہنچ گئے اسے سارا قصہ سنایا کہ اب یہاں کام کرنا مشکل ہے مشینز وغیرہ کہیں اور شفٹنگ کرنا آسان بھی نہیں اور خرچہ بھی کافی ہو جائے گا۔

بروکر نے توقعہ کے برعکس بات توجہ سے سنی اور کہا کہ مجھے اس بارے میں کچھ معلوم ہے مگر کبھی کسی پر ایسا حملہ وغیرہ نہیں ہوا ہم نے اس سے ہی صبا سنیما کے قریب ایک اور جگہ کی بات کی پھر اس نے اس لڑکی کے بھوت یا روح کی کہانی جو اس نے چار پانچ سال قبل سنی تھی وہ بتاٰئ کہ ہمارے فیکٹری کے پلاٹ کے پیچھے خالی پلاٹ میں کچھ لوگ شام کے وقت ٹرکوں سے اسمگل شدہ مال اور شراب وغیرہ کاروں میں بھر کر منتقل کرتے تھے کے ایک روز اس پلاٹ کے سامنے کچی آبادی سے ایک لڑکا جس کی دو روز بعد شادی تھی وہ اپنے دوست کے ساتھ حجام کے پاس بال بنوانے نکلا تو ان گاڑیوں میں سے کسی ایک کار نے اسے ٹکر ماردی لڑکا اور اس کا دوست ان سے الجھ پڑے تو خالی پلاٹ میں جہاں ٹرک کھڑے تھے ان لوگوں نے ان کو پکڑ کر خالی پلاٹ میں لیجا کر تشدد کیا جس سے دونوں ہلاک ہوگئے وہ ان کو وہی چھوڑ کر بھاگ گئے۔

لڑکوں کے گھر والے دو دنوں تک انہیں ڈھونڈتے رہے اور پھر ان کی لاشیں وہاں سے ملی یہ خبر سن کر دلہن کا بھی ہارت فیل ہو گیا۔

کہتے ہیں یہ وہی لڑکی ہے جو ان تینوں پلاٹس کے اطراف اپنے دولہے کے قاتلوں کو ڈھنڈتی پھرتی ہے۔ 

ہم نے وہ جگہ چھوڑ دی اور پھر کبھی مڑ کر اس روڈ کی طرف بھی

 نہیں گئے ۔ 😢

جامن کا درخت


انسان کی زندگی میں کچھ واقعات ایسے ہوتے ہیں جو انسان کی زندگی پر گہرے اثرا ت اورگہرے نقوش چھوڑ جاتے ہیں۔ کچھ واقعات تو ا یسے ہوتے ہیں جن کو سن کر لوگ مشکل سے ہی یقین کرتے ہیں مگر ایسے واقعات سچ ہوتے ہیں۔ ایک ایسا ہی واقعہ سنیں جوکہ ہمارے دوستوں کے ساتھ پیش آیا۔


یہ بات کافی پرانی ہے جب ہم سب دوست شام کو گرونڈ سے واپس آ کر اپنے محلے میں جمع ہو جاتے تو خوب محفل لگاتے ۔

ایک دن ہم رات کا کھانا کھا کر گھر سے باہر نکلے تو دوستوں نے بولا آج جمعرات ہے اور آج جن بھوت اور چڑیلوں کا دن ہے میں جن بھوتوں پہ یقین تو رکھتا تھا پر کبھی ان سے آمنا سامنا نہیں ہوا تو میں اس کی بات سن کر ہنس دیا 

اس نے میری طرف غصے سے دیکھا اور بولا یہ جو گاوں سے باہر کھیتوں میں جامن کا درخت ہے اس پہ آج جن بھوت آئے گے اگر نہیں یقین تو تم سب میرے ساتھ جا کر دیکھ لو ۔

ہم سب نے حامی بھر لی اور اس کے ساتھ چلنے کو تیار ہو گئے ۔

میں اس دوست کا نام بتاتا چلو یہاں اس کا نام ندیم تھا اور وہ اکثر رات کو اکیلا کھیتوں میں گھومتا رہتا تھا 

اس لیئے اس پہ کچھ دوستوں نے یقین بھی کر لیا تھا پر ہم نے یقین نہیں کیا 

ہم 5 دوست تھے جس کے نام تھے عابد ناصر ساجد مدثر اور ندیم 

جیسے ہی عشاء کی آذان ہوئی ہم نکل پڑے اس کے ساتھ کھیتوں میں جن بھوت دیکھنے رات کافی گہری ہوئی چلی جا رہی تھی تو ڈر بھی لگ رہا تھا 

ابھی ہمیں چلتے ہوئی دس پندرہ منٹ ہی گزرے تھے ایک کھیت سے بکری کے چھوٹے بچے کے بولنے کی آواز آئی 

عابد نے بولا روکوں یہاں پاس سے کسی جانور کی آواز آرہی ہے سب رک گئے اور خاموشی سے آواز سنے کا انتظار کرنے لگے کے کس طرف سے یہ آواز آرہی ہے 

ابھی تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ بکری کے بچے کی آواز دبارہ سنائی دی ندیم نے فورا بولا آواز اس طرف سے آ رہی ہے جو 2 چار کھیت چھوڑ کر ہی برسن کا کھیت تھا آواز وہاں سے آرہی تھی سردیوں کے دن تھے اور ان دنوں میں برسن عام ہوتا ہے سب دوست اس طرف جانے لگے تو ناصر نے بولا چھوڑو یار جو بھی ہے ہمیں کیا لینا دینا اس سے ہم جس کام کے لئے جا رہے ہیں اس طرف چلو پر کوئی بھی نہیں مانا اور برسن کے کھیت کی طرف بڑھنے لگے سب ہی 

وہاں جا کر دیکھا تو ایک چھوٹا سا بکری کا بچہ وہاں کھیت میں بیٹھا تھا ہم میں سے کوئی کچھ بولتا اس سے پہلے ہی ندیم نے کہا لگتا ہے جو یہاں بکریاں چراوانے آتے ہیں ان کا رہ گیا ہو گا اس کو اٹھا لو صبح پتا لگا کر واپس کر دیں گے سب نے اس کی بات سے اتفاق کیا اور ایسا ہی کیا اس کو ہم نے اٹھا لیا اور اپنی منزل کی جانب بڑھنے لگے رات کافی گہری ہوتی چلی جا رہی تھی اور ہمارے ڈر میں مزید اضافہ بھی ہو رہا تھا کیوں کہ کیھتوں میں طرح طرح کے جانور کی آوازیں آ رہی تھی 

مدثر نے بولا یار ہم کو واپس جانا چاہئے آگے بہت خطرہ ہے سب اس پہ ہنسنے لگے اور اس کو ڈرپوک کہنے لگے خیر وہ خاموشی سے ان کے ساتھ چلتا رہا 

پھر راستے میں ہمیں سیٹی کی آواز آنا شروع ہو گئی سب رک گئے اور ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے ڈر سب کے چہرے سے صاف نظر آرہا تھا پر کوئی بھی یہ نہیں چاہتا تھا کہ ہم واپس جائے اور اللہ کا نام لے کر اس جامن کے درخت کی طرف بڑھنے لگے ابھی تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ ہمیں چلتے ہوئے تو سامنے ہی وہ درخت نظر آگیا ہم سب دوست اس درخت سے تھوڑا ہٹ کر بیٹھ گئے سب سے پہلے تو مدثر نے بولا اس بکری کے گلے میں کوئی رسی وغیرہ ڈال دو تاکہ یہ کہی ادھر اودھر نہ ہو جائے سب دوست رسی ڈھونڈے لگ پڑے اور جلدی ہی ایک چھوٹی سی رسی مل گئی تھی اس کو ہم نے اس کے گلے میں ڈالا اور رسی ناصر کو پکڑا دی اور سب کی نظریں اس درخت پہ جمی تھی دس پندرہ منٹ ہی گزرے تھے کہ اس جامن کے درخت کے اوپر سے ایک بریک سی لال رنگ کی لائیٹ نظر آئی وہ لائیٹ اتنی بریک تھی اور اتنی تیز تھی یہاں بتانا مشکل ہے 

وہ لائیٹ کبھی درخت پہ جاتی کبھی درخت سے نیچے آتی ہمارا خوف کے مارے برا حال ہو رہا تھا اور ساتھ ہی پرسرار آوازیں آنا شروع ہو گئی ہم سب نے اونچی آواز میں ورد پڑھنا شروع کر دیئے کچھ دوست تو وہاں سے بھاگنے کے لئے تیار تھے ہم نے روک رکھا تھا ان کو 

پھر سب نے ہی محسوص کیا کہ لائیٹ اب ہماری طرف بڑھ رہی تھی جب سب نے یہ منظر دیکھا تو وہاں سے بھاگنے میں ہی بہتری سمجھی اور اتنی سپیڈ سے سب وہاں سے الٹے پاوں دوڑے اور ہمارے پیچھے اتنی خوفناک آوازیں بلند ہو رہی تھی بس یہی محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ باکل ہمارے پاس ہی ہیں اور کسی بھی لمحے وہ ہم سب کو نقصان پہنچا سکتی ہیں ہم نے ہمت نہ ہاری اور بھاگتے رہے ورد کرتے رہے اور واپس گاوں آ کر سانس لیا 

جب ہم سب گاوں کی حدود میں پہنچ گئے تو مدثر نے ناصر کی طرف دیکھا اور پوچھا آپ کے پاس بکری کا بچہ تھا وہ کہاں چھوڑ آئے اس نے ہاتھ کی طرف دیکھا تو اس کے ہاتھ میں صرف رسی تھی اس نے بولا کہ جب ہم وہاں سے بھاگ رہے تھے تو یہ صرف رسی ہی تھی بکری کا بچہ کدھر گیا اس کو کچھ معلوم نہیں جب وہاں سے واپس دوڑے تو وہ بکری کا بچہ وہاں ہمارے ساتھ نہیں تھا صرف یہ رسی ہی تھی 

کیا وہ سچ میں بکری کا بچہ تھا یا کوئی اور مخلوق تھی سب دوستوں نے کہاں جو بھی تھا ہم صبح صبح وہاں جا کر ضرور دیکھے گے 

جب صبح ہوئی تو کوئی بھی وہاں جانے کو تیار نہیں تھا سوائے ندیم اور مدثر کے 

وہ دونوں کھیتوں میں گئے اور اسی جگہ گئے تو انہوں نے وہاں بکری کے بچے کو مرا ہو پایا جو جامن کے درخت کے بالکل قریب ہی پڑا تھا اس کی صرف ہڈیاں ہی ہڈیاں نظر آرہی تھی اس بکری کے بچے پہ گوشت کا کوئی ناموں نشان بھی نہیں تھا وہ دونوں سمجھ چکے تھے رات کو جو کچھ بھی ہوا وہ ان کا وہم نہیں تھا 

اس درخت پہ واقعی کچھ ایسا تھا جو ندیم نے بولا تھا اس کے بعد وہ واپس آگئے اور کبھی بھی رات کے ٹائم باہر گھومنے سے توبہ کر لی......ختم شد.....

اب بتاؤ مزا آیا

 کہ نہیں سچی سچی دسو......

Show

یہ قصہ کل رات کا

یہ قصہ کل رات ہی سنا ہے جس نے سنایا ان ہی کی زبانی بیان کر رہا ہوں  نیو کراچی شفیق موڑ کے پاس 2001 میں ہم نے ایک کرایہ کی جگہ پر نیو فیکٹری ...

Popular posts