Translate

ہفتہ، 19 اپریل، 2025

جامن کا درخت


انسان کی زندگی میں کچھ واقعات ایسے ہوتے ہیں جو انسان کی زندگی پر گہرے اثرا ت اورگہرے نقوش چھوڑ جاتے ہیں۔ کچھ واقعات تو ا یسے ہوتے ہیں جن کو سن کر لوگ مشکل سے ہی یقین کرتے ہیں مگر ایسے واقعات سچ ہوتے ہیں۔ ایک ایسا ہی واقعہ سنیں جوکہ ہمارے دوستوں کے ساتھ پیش آیا۔


یہ بات کافی پرانی ہے جب ہم سب دوست شام کو گرونڈ سے واپس آ کر اپنے محلے میں جمع ہو جاتے تو خوب محفل لگاتے ۔

ایک دن ہم رات کا کھانا کھا کر گھر سے باہر نکلے تو دوستوں نے بولا آج جمعرات ہے اور آج جن بھوت اور چڑیلوں کا دن ہے میں جن بھوتوں پہ یقین تو رکھتا تھا پر کبھی ان سے آمنا سامنا نہیں ہوا تو میں اس کی بات سن کر ہنس دیا 

اس نے میری طرف غصے سے دیکھا اور بولا یہ جو گاوں سے باہر کھیتوں میں جامن کا درخت ہے اس پہ آج جن بھوت آئے گے اگر نہیں یقین تو تم سب میرے ساتھ جا کر دیکھ لو ۔

ہم سب نے حامی بھر لی اور اس کے ساتھ چلنے کو تیار ہو گئے ۔

میں اس دوست کا نام بتاتا چلو یہاں اس کا نام ندیم تھا اور وہ اکثر رات کو اکیلا کھیتوں میں گھومتا رہتا تھا 

اس لیئے اس پہ کچھ دوستوں نے یقین بھی کر لیا تھا پر ہم نے یقین نہیں کیا 

ہم 5 دوست تھے جس کے نام تھے عابد ناصر ساجد مدثر اور ندیم 

جیسے ہی عشاء کی آذان ہوئی ہم نکل پڑے اس کے ساتھ کھیتوں میں جن بھوت دیکھنے رات کافی گہری ہوئی چلی جا رہی تھی تو ڈر بھی لگ رہا تھا 

ابھی ہمیں چلتے ہوئی دس پندرہ منٹ ہی گزرے تھے ایک کھیت سے بکری کے چھوٹے بچے کے بولنے کی آواز آئی 

عابد نے بولا روکوں یہاں پاس سے کسی جانور کی آواز آرہی ہے سب رک گئے اور خاموشی سے آواز سنے کا انتظار کرنے لگے کے کس طرف سے یہ آواز آرہی ہے 

ابھی تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ بکری کے بچے کی آواز دبارہ سنائی دی ندیم نے فورا بولا آواز اس طرف سے آ رہی ہے جو 2 چار کھیت چھوڑ کر ہی برسن کا کھیت تھا آواز وہاں سے آرہی تھی سردیوں کے دن تھے اور ان دنوں میں برسن عام ہوتا ہے سب دوست اس طرف جانے لگے تو ناصر نے بولا چھوڑو یار جو بھی ہے ہمیں کیا لینا دینا اس سے ہم جس کام کے لئے جا رہے ہیں اس طرف چلو پر کوئی بھی نہیں مانا اور برسن کے کھیت کی طرف بڑھنے لگے سب ہی 

وہاں جا کر دیکھا تو ایک چھوٹا سا بکری کا بچہ وہاں کھیت میں بیٹھا تھا ہم میں سے کوئی کچھ بولتا اس سے پہلے ہی ندیم نے کہا لگتا ہے جو یہاں بکریاں چراوانے آتے ہیں ان کا رہ گیا ہو گا اس کو اٹھا لو صبح پتا لگا کر واپس کر دیں گے سب نے اس کی بات سے اتفاق کیا اور ایسا ہی کیا اس کو ہم نے اٹھا لیا اور اپنی منزل کی جانب بڑھنے لگے رات کافی گہری ہوتی چلی جا رہی تھی اور ہمارے ڈر میں مزید اضافہ بھی ہو رہا تھا کیوں کہ کیھتوں میں طرح طرح کے جانور کی آوازیں آ رہی تھی 

مدثر نے بولا یار ہم کو واپس جانا چاہئے آگے بہت خطرہ ہے سب اس پہ ہنسنے لگے اور اس کو ڈرپوک کہنے لگے خیر وہ خاموشی سے ان کے ساتھ چلتا رہا 

پھر راستے میں ہمیں سیٹی کی آواز آنا شروع ہو گئی سب رک گئے اور ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے ڈر سب کے چہرے سے صاف نظر آرہا تھا پر کوئی بھی یہ نہیں چاہتا تھا کہ ہم واپس جائے اور اللہ کا نام لے کر اس جامن کے درخت کی طرف بڑھنے لگے ابھی تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ ہمیں چلتے ہوئے تو سامنے ہی وہ درخت نظر آگیا ہم سب دوست اس درخت سے تھوڑا ہٹ کر بیٹھ گئے سب سے پہلے تو مدثر نے بولا اس بکری کے گلے میں کوئی رسی وغیرہ ڈال دو تاکہ یہ کہی ادھر اودھر نہ ہو جائے سب دوست رسی ڈھونڈے لگ پڑے اور جلدی ہی ایک چھوٹی سی رسی مل گئی تھی اس کو ہم نے اس کے گلے میں ڈالا اور رسی ناصر کو پکڑا دی اور سب کی نظریں اس درخت پہ جمی تھی دس پندرہ منٹ ہی گزرے تھے کہ اس جامن کے درخت کے اوپر سے ایک بریک سی لال رنگ کی لائیٹ نظر آئی وہ لائیٹ اتنی بریک تھی اور اتنی تیز تھی یہاں بتانا مشکل ہے 

وہ لائیٹ کبھی درخت پہ جاتی کبھی درخت سے نیچے آتی ہمارا خوف کے مارے برا حال ہو رہا تھا اور ساتھ ہی پرسرار آوازیں آنا شروع ہو گئی ہم سب نے اونچی آواز میں ورد پڑھنا شروع کر دیئے کچھ دوست تو وہاں سے بھاگنے کے لئے تیار تھے ہم نے روک رکھا تھا ان کو 

پھر سب نے ہی محسوص کیا کہ لائیٹ اب ہماری طرف بڑھ رہی تھی جب سب نے یہ منظر دیکھا تو وہاں سے بھاگنے میں ہی بہتری سمجھی اور اتنی سپیڈ سے سب وہاں سے الٹے پاوں دوڑے اور ہمارے پیچھے اتنی خوفناک آوازیں بلند ہو رہی تھی بس یہی محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ باکل ہمارے پاس ہی ہیں اور کسی بھی لمحے وہ ہم سب کو نقصان پہنچا سکتی ہیں ہم نے ہمت نہ ہاری اور بھاگتے رہے ورد کرتے رہے اور واپس گاوں آ کر سانس لیا 

جب ہم سب گاوں کی حدود میں پہنچ گئے تو مدثر نے ناصر کی طرف دیکھا اور پوچھا آپ کے پاس بکری کا بچہ تھا وہ کہاں چھوڑ آئے اس نے ہاتھ کی طرف دیکھا تو اس کے ہاتھ میں صرف رسی تھی اس نے بولا کہ جب ہم وہاں سے بھاگ رہے تھے تو یہ صرف رسی ہی تھی بکری کا بچہ کدھر گیا اس کو کچھ معلوم نہیں جب وہاں سے واپس دوڑے تو وہ بکری کا بچہ وہاں ہمارے ساتھ نہیں تھا صرف یہ رسی ہی تھی 

کیا وہ سچ میں بکری کا بچہ تھا یا کوئی اور مخلوق تھی سب دوستوں نے کہاں جو بھی تھا ہم صبح صبح وہاں جا کر ضرور دیکھے گے 

جب صبح ہوئی تو کوئی بھی وہاں جانے کو تیار نہیں تھا سوائے ندیم اور مدثر کے 

وہ دونوں کھیتوں میں گئے اور اسی جگہ گئے تو انہوں نے وہاں بکری کے بچے کو مرا ہو پایا جو جامن کے درخت کے بالکل قریب ہی پڑا تھا اس کی صرف ہڈیاں ہی ہڈیاں نظر آرہی تھی اس بکری کے بچے پہ گوشت کا کوئی ناموں نشان بھی نہیں تھا وہ دونوں سمجھ چکے تھے رات کو جو کچھ بھی ہوا وہ ان کا وہم نہیں تھا 

اس درخت پہ واقعی کچھ ایسا تھا جو ندیم نے بولا تھا اس کے بعد وہ واپس آگئے اور کبھی بھی رات کے ٹائم باہر گھومنے سے توبہ کر لی......ختم شد.....

اب بتاؤ مزا آیا

 کہ نہیں سچی سچی دسو......

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Show

یہ قصہ کل رات کا

یہ قصہ کل رات ہی سنا ہے جس نے سنایا ان ہی کی زبانی بیان کر رہا ہوں  نیو کراچی شفیق موڑ کے پاس 2001 میں ہم نے ایک کرایہ کی جگہ پر نیو فیکٹری ...

Popular posts