یہ کہانی سچے واقعات پر مبنی ہے...
بہت سال پہلے کی بات ہے ایک گاؤں میں ایک لڑکی تھی، دوسرے بچوں کی طرح اس کو بھی کھیل کود میں بہت مزہ آتا تھا۔ اور بچے تو کسی کی سنتے ہی نہیں ہیں تیز بارش ہو یا تیز دھوپ بچوں کو تو بس کھیلنے سے ہی مطلب ہوتا ہے ۔سخت گرمیوں کا موسم تھا اور دوپہر کا وقت تھا نور اپنی کزن شاہانہ کے ساتھ اس جگہ گئی جہاں وہ ہمیشہ کھیلنے جاتے تھے۔ وہ جگہ ان کے گھر سے تھوڑی ہی دور تھی اور وہاں پر ایک درخت تھا جہاں پے بچیوں نے کھیلنے کے لیے ایک جھولا لگایا ہوا تھا۔ ویسے تو اس درخت کے پاس ہمیشہ ہی لڑکیاں موجود ہوتی تھی پر آج جیسے ہی نور اور اس کی کزن وہاں گئے تو وہاں پر کوئی بھی نہیں تھا، تو انہوں نے کہا کہ چلو اچھا ہے آج ہم خود ہی مزا کریں گے اور نور جلدی سے جاکر جھولے پر بیٹھ گئی اور اس بات پر شہانہ کو بہت غصہ آیا ۔ شاہانہ نے نور سے کہا کہ پہلے مجھے بیٹھنے دو پر نور نے اسے نہیں بیٹھنے دیا اور شہانہ غصے میں چلی گئی۔ نور کو یہ احساس ہی نہیں ہوا کہ نور وہاں پر اب اکیلی رہ گئی تھی ۔اچانک نور کو محسوس ہوا کہ جیسے اسے کوئی جھولے دے رہا ہے ، اور آہستہ آہستہ وہ اور تیز ہوا میں جا رہی تھی، اب وہ خود بھی ڈرنے لگی تھی کہ یہ اس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے ۔ نور وہاں پر چلانے لگی پر وہاں کوئی بھی نہیں تھا جو اس کی مدد کرتا۔ نور کو عجیب عجیب آوازیں سنائی دینے لگیں اور وہ اچانک سے اس جھولے سے گر گئی اور بے ہوش ہوگئی کچھ دیر بعد جب اس کی آنکھ کھلی تو اس نے دیکھا کہ وہ اپنے ہی گھر میں ہے۔ پر وہ کچھ بولنے یا پھر کچھ کرنے کی حالت میں نہیں تھی وہ سب کو بتانا چاہ رہی تھی کہ اس کے ساتھ کیا ہوا پر وہ کچھہ نہیں بول پا رہی تھی۔ دن بہ دن اس کی حالت خراب ہوتی جارہی تھی۔ اس کے ماں باپ نے ہر ڈاکٹر ہر حکیم سے بات کر کے دیکھ لی پر کوئی بھی اس کا علاج نہیں کر پا رہا تھا۔ اور ایک دن نور کے بابا کسی بزرگ کو لے کر آئے اور اس بزرک نے ان کو بتایا کہ نور اب زیادہ دن زندہ نہیں رہ سکتی کیونکہ وہ پوری طرح غیب کے قبضے میں آ گئی ہے پھر بھی اس بزرگ نے اپنی طرف سے پوری کوشش کرلی کہ وہ نور کو بچا لیں، پر کچھ دن بعد ہی پتہ چلا کہ نور اب اس دنیا میں نہیں رہی(سننے میں کچھ یوں آیا کہ مرنے سے کچھ دیر پہلے نور بالکل صحیح ہو گئی تھی اور اس نے نے اپنی ماں کو سب کچھ بتایا جو کچھ بھی اس کے ساتھ ہوا تھا، اور آخری بات جو اس نے بتائی وہ یہ تھی کہ کوئی اس کے کان میں روز کہتا تھا کہ موت کا کوئی علاج نہیں)۔۔۔
امید ہے سب کو کہانی پسند آئے گی۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں