Translate

ہفتہ، 19 اپریل، 2025

خالی گھر


یہ تب کی بات ہے جب میں بہت چھوٹا تھا قریب 8 یا 9 سال کا اور اسوقت ہم اسنسول جو کر انڈیا کا ایک شہر ہے تو میری فیملی کرایہ میں رہا کرتی تھی۔

ہم جس گھر میں رہتے تھے اُس گھر میں ایک امرود کا پیڑ ہوا کرتا تھا اور چونکہ ہمارے والد محترم کافی سخت مزاج کے تھے اسلئے ہم اکثر اُنسے چھپ کر امرود توڑتے تھے کیوں اگر اُنھیں اس بات کا علم ہوجاتا تو پھر ہماری پٹائی پکی تھی۔

چونکہ امرود کا پیڑ چھت سے قریب ہوتا تھا تو میں اکثر رات میں امرود توڑتا تھا۔

ایک بار کی بات ہے لائٹ چلی گئی تو میں نے سوچا کی اچھا موقع ہے امرود پر ہاتھ صاف کیا جائے مگر میں جیسے ہی پیڑ کے قریب پہنچا مجھے کوئی سفید لباس پہنے کوئی امرود کے ڈالی زور زور سے ہلا رہا ہے جیسے نیچے کوئی امرود گرنے کا منتظر ہوں۔

عموماً میں ڈرنے والو میں سے نہیں ہو اسلئے میں چپ چپ نیچے چلے آیا۔

نیچے آنے کے بعد رات بھر میں مجھے بخار ہوگیا اور ہر روز خواب میں ایک آدمی مجھے امرود کی ٹوکری دے رہا ہوتا۔

میں نے کسی سے ذکر نہیں کیا۔

بخار کبھی رہتا کبھی چلا جاتا۔

آپلوگو کو ایک بات بتا دوں ہمارے والد محترم عامل ہے ہمارے گھر میں بےشمار کتابیں ہے ان چیزوں کو لیکر۔

خیر میں نے خواب کا ذکر اپنی والدہ محترمہ سے کیا پہلے تو وُہ میرے خواب کو اتنی سنجیدگی سے نہیں لیا مگر میری حالت دیکھنے کے بعد ابّو کو ساری بتائیں بتائیں۔

ابّو کچھ پڑھ کر دم کیا اور پھر جمرات کو ایک نوی بلیو رنگ کا دھاگہ منگوایا اور میرا سر سے لیکر پیر تک ناپ لیا اور پتہ نہیں کتنی بار اسکا ته بنایا پھر اُس پر کوئی دعا پڑھیں اور پھر مجھے ہاتھ میں اس دھاگے کو رکھنے کا حکم دیا وُہ بھی ہاتھ بند کرکے۔

پھر میرا دوبارہ ناپ لیا تو دھاگہ چھوٹا ہوگا ۔

ابّو نے غصے میں پوچھے تو میں نے ڈر کر امرود والی بات بتا دی۔

ابّو بینا کچھ بولے 1 ہفتے کے بعد گھر خالی کردیئے اور ہم لوگ نئے گھر میں آگئے۔

اور اُسکے بعد جیتنے بھی گھر کرائے پر لیے اسمیں کبھی پیڑ دیکھنا نصیب نہ ہوا۔

تو حضرات بتائیں ابّو نے ایسا کیوں کیا ہوگا اور گھر خالی ہونے کے بعد مجھے پھر کبھی ویسا خواب نہیں آیا۔

موت کا کوئی علاج نہین


 یہ کہانی سچے واقعات پر مبنی ہے...

بہت سال پہلے کی بات ہے ایک گاؤں میں ایک لڑکی تھی، دوسرے بچوں کی طرح اس کو بھی کھیل کود میں بہت مزہ آتا تھا۔ اور بچے تو کسی کی سنتے ہی نہیں ہیں تیز بارش ہو یا تیز دھوپ بچوں کو تو بس کھیلنے سے ہی مطلب ہوتا ہے ۔سخت گرمیوں کا موسم تھا اور دوپہر کا وقت تھا نور اپنی کزن شاہانہ کے ساتھ اس جگہ گئی جہاں وہ ہمیشہ کھیلنے جاتے تھے۔ وہ جگہ ان کے گھر سے تھوڑی ہی دور تھی اور وہاں پر ایک درخت تھا جہاں پے بچیوں نے کھیلنے کے لیے ایک جھولا لگایا ہوا تھا۔ ویسے تو اس درخت کے پاس ہمیشہ ہی لڑکیاں موجود ہوتی تھی پر آج جیسے ہی نور اور اس کی کزن وہاں گئے تو وہاں پر کوئی بھی نہیں تھا، تو انہوں نے کہا کہ چلو اچھا ہے آج ہم خود ہی مزا کریں گے اور نور جلدی سے جاکر جھولے پر بیٹھ گئی اور اس بات پر شہانہ کو بہت غصہ آیا ۔ شاہانہ نے نور سے کہا کہ پہلے مجھے بیٹھنے دو پر نور نے اسے نہیں بیٹھنے دیا اور شہانہ غصے میں چلی گئی۔ نور کو یہ احساس ہی نہیں ہوا کہ نور وہاں پر اب اکیلی رہ گئی تھی ۔اچانک نور کو محسوس ہوا کہ جیسے اسے کوئی جھولے دے رہا ہے ، اور آہستہ آہستہ وہ اور تیز ہوا میں جا رہی تھی، اب وہ خود بھی ڈرنے لگی تھی کہ یہ اس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے ۔ نور وہاں پر چلانے لگی پر وہاں کوئی بھی نہیں تھا جو اس کی مدد کرتا۔ نور کو عجیب عجیب آوازیں سنائی دینے لگیں اور وہ اچانک سے اس جھولے سے گر گئی اور بے ہوش ہوگئی کچھ دیر بعد جب اس کی آنکھ کھلی تو اس نے دیکھا کہ وہ اپنے ہی گھر میں ہے۔ پر وہ کچھ بولنے یا پھر کچھ کرنے کی حالت میں نہیں تھی وہ سب کو بتانا چاہ رہی تھی کہ اس کے ساتھ کیا ہوا پر وہ کچھہ نہیں بول پا رہی تھی۔ دن بہ دن اس کی حالت خراب ہوتی جارہی تھی۔ اس کے ماں باپ نے ہر ڈاکٹر ہر حکیم سے بات کر کے دیکھ لی پر کوئی بھی اس کا علاج نہیں کر پا رہا تھا۔ اور ایک دن نور کے بابا کسی بزرگ کو لے کر آئے اور اس بزرک نے ان کو بتایا کہ نور اب زیادہ دن زندہ نہیں رہ سکتی کیونکہ وہ پوری طرح غیب کے قبضے میں آ گئی ہے پھر بھی اس بزرگ نے اپنی طرف سے پوری کوشش کرلی کہ وہ نور کو بچا لیں، پر کچھ دن بعد ہی پتہ چلا کہ نور اب اس دنیا میں نہیں رہی(سننے میں کچھ یوں آیا کہ مرنے سے کچھ دیر پہلے نور بالکل صحیح ہو گئی تھی اور اس نے نے اپنی ماں کو سب کچھ بتایا جو کچھ بھی اس کے ساتھ ہوا تھا، اور آخری بات جو اس نے بتائی وہ یہ تھی کہ کوئی اس کے کان میں روز کہتا تھا کہ موت کا کوئی علاج نہیں)۔۔۔

امید ہے سب کو کہانی پسند آئے گی۔۔

Show

یہ قصہ کل رات کا

یہ قصہ کل رات ہی سنا ہے جس نے سنایا ان ہی کی زبانی بیان کر رہا ہوں  نیو کراچی شفیق موڑ کے پاس 2001 میں ہم نے ایک کرایہ کی جگہ پر نیو فیکٹری ...

Popular posts