Translate

ہفتہ، 19 اپریل، 2025

یہ قصہ کل رات کا


یہ قصہ کل رات ہی سنا ہے جس نے سنایا ان ہی کی زبانی بیان کر رہا ہوں 

نیو کراچی شفیق موڑ کے پاس 2001 میں ہم نے ایک کرایہ کی جگہ پر نیو فیکٹری کا اسٹرٹ لیا تھا یہ ایک بڑا پلاٹ تھا جس میں تین پورشن پر مختلف فیکٹریز تھی گیٹ سے داخل ہوتے ہی چوکیدار کا روم پھر دو طرف دو فیکٹریز اور سامنے ہماری فیکٹری تھی ہمارے پورشن میں داخل ہوتے ہی سامنے آفس ایک طرف گودام میں کچا مال اور دوسری طرف مشینز لگی ہوئ تھیں۔

اردگرد میں تین طرف خالی پلاٹ تھے اور گیٹ کے سامنے چائے کا ہوٹل اور پان کی دکان تھی۔ 

ہمارا نیا نیا کام تھا تو اکثر وہیں سمپلنگ وغیرہ بنواتے تھے اور اکثر دیر رات تک وہیں بیٹھے رہتے کھانا چائے سگریٹ کے دور بھی چلتے تھے۔ 

ایک رات قریب دس سوا دس پر لڑکے کو کھانا اور چائے سگریٹ لینے بھیجا ہوا تھا کہ اچانک بارش ہو گئ تھوڑی دیر بعد کھانا آگیا تو سب ساتھ مل کر کھانے لگے اسی دوران باتوں باتوں میں لڑکے نے کہا کہ ہماری فیکٹری کی چھت پر شائد چوکیدار کی بیوی یا بیٹی بارش میں لال جوڑا پہنے اکیلی نہا رہی ہے ہم نے اس کو کہا زیادہ مت دیکھنا یہ پٹھان اپنی عورتوں کے بارے میں کافی سخت ہوتے ہیں کچھ غلط سمجھ لیا تو تجھے مار مور کر یہیں کسی خالی پلاٹ میں دفنا دیں گے۔ 

کھانے وغیرہ سے فارغ ہوئے تو بارش بھی رک گئ تھی ہم سب گھر کے لیئے نکلنے لگے گیٹ سے گاڑی نکلنے لگی تو دانستہ نظر وہی چھت کی طرف گئ تو وہاں اس وقت بھی کوئ لال چادر یا دوپٹہ اوڑھے بیٹھا تھا۔ 

دو تین دن گزر گئے بات آئ گئ ہو گئ پھر اچانک ایک بار پھر دن کے وقت بارش شروع ہو گئ اس بار بارش کچھ زیادہ تیز تھی ہمارے پورشن میں گودام والی طرف چھت سے پانی آنے لگا تو ہم نے جلدی جلدی لوڈر سے مال سائڈ میں کروایا اور لڑکے کو چوکیدار کے پاس بھیجا کہ اوپر چھت سے پانی آرہا ہے تو ہم کو اوپر جا کر پلاسٹک بچھانا ہے تاکے پانی اندر نہ آئے مگر وہ لڑکا واپس آکر کہنے لگا کہ چوکیدار تو کہہ رہا ہے کہ اوپر جانے کا کوئ راستہ نہیں آپ خود کسی سیڑھی کا بندوبست کرلیں ہم کو فوراً وہ چھت پر بیٹھی عورت یاد آگئ تو میں خود چوکیدار کے پاس گیا اور اس سے کہا کہ جہاں آپ کی فیملی رہتی ہے ہم اس طرف سے چلے جاتے ہیں۔ 

چوکیدار حیران پریشان کہنے لگا ہماری تو فیملی گاؤں میں ہے چھت پر تو کوئ نہیں رہتا نہ ہی کوئ راستہ ہے تو عورت کہاں سے آگئ ۔۔۔۔ 😦😟

کل قصہ ادھورہ رہ گیا تھا وہ آج پورا کر رہا ہوں 

جیسا کہ کل بتایا تھا کہ چوکیدار نے جب بتایا کہ اوپر چھت کا راستہ نہیں اور کوئ رہتا بھی نہیں وہ سن کر ہم خوفزدہ تو ہوئے مگر بارش کا پانی چھت سے آرہا تھا اس کو روکنا بھی تھا تو برابر پورشن والوں سے سیڑھی لیکر لڑکوں کو بھیجا کہ چھت پر خیال سے جا کر پلاسٹک شیٹ بچھا آؤ وہ اوپر گئے اور واپس آکر بتایا کہ چھت پر کچھ کچرا تھا جس سے پانی جمع ہو کر نیچے فیکٹری میں آرہا تھا۔

وہ دن تو خیریت سے گزر گیا مگر جس عورت کو لال لباس میں دیکھا تھا اس نے دوسرے دن صبح ہی اپنا اثر دکھانا شروع کردیا ہوا ہوں کہ لوڈر صبح باتھ روم گیا تو اس نے باتھ روم میں چیخنا شروع کردیا ہم سب وہاں گئے تو دروازہ اندر سے بند کر کے وہ زور زور سے چیخ رہا تھا کہ وہ عورت باتھ روم کے باہر کھڑی اسے غور رہی ہے ہم نے اسے بتایا کہ کوئ نہیں ہے تم باہر آجاؤ اس نے باہر آکر بتایا کہ دروازہ بند ہونے کے باوجود اسے محسوس ہوا بلکہ اسے نظر آیا کہ وہ عورت اسے دیکھ رہی ہے اس کا پورا جسم سن ہوگیا تھا وہ ہل بھی نہیں پارہا تھا پھر شام کو پھر کسی کو محسوس ہوا جیسے اسے سرد ہوا چھو کر گزری ہو میں مشین کے پاس کھڑا تھا مجھے صاف نظر آیا کہ وہ عورت میرے پیچھے کھڑی ہے اور مجھے جھر جھری سی آگئ جیسے تیسے وہ دن گزرا تو اگلے دن معاملہ زیادہ خطرناک ہو گیا ایک اور لوڈر گودام میں گیا تو اس نے کسی کو اپنے اوپر چھلانگ لگاتے دیکھا وہ ڈر کر پیچھے ہوا تو لوڈنگ کی ٹرالی سے ٹکرا کر اپنا سر پھاڑ بیٹھا اسے کلینک سمجھا کر بھیجا کہ کچھ الٹی بات نہ کرے ورنہ لوگ مزاق بنائیں گے اور پھر گھر چلا جائے۔ اب معاملہ زیادہ خراب تھا تو ہم نے بھی فیکٹری بند کی اور جس بروکر سے یہ جگہ لی تھی اس کے آفس پہنچ گئے اسے سارا قصہ سنایا کہ اب یہاں کام کرنا مشکل ہے مشینز وغیرہ کہیں اور شفٹنگ کرنا آسان بھی نہیں اور خرچہ بھی کافی ہو جائے گا۔

بروکر نے توقعہ کے برعکس بات توجہ سے سنی اور کہا کہ مجھے اس بارے میں کچھ معلوم ہے مگر کبھی کسی پر ایسا حملہ وغیرہ نہیں ہوا ہم نے اس سے ہی صبا سنیما کے قریب ایک اور جگہ کی بات کی پھر اس نے اس لڑکی کے بھوت یا روح کی کہانی جو اس نے چار پانچ سال قبل سنی تھی وہ بتاٰئ کہ ہمارے فیکٹری کے پلاٹ کے پیچھے خالی پلاٹ میں کچھ لوگ شام کے وقت ٹرکوں سے اسمگل شدہ مال اور شراب وغیرہ کاروں میں بھر کر منتقل کرتے تھے کے ایک روز اس پلاٹ کے سامنے کچی آبادی سے ایک لڑکا جس کی دو روز بعد شادی تھی وہ اپنے دوست کے ساتھ حجام کے پاس بال بنوانے نکلا تو ان گاڑیوں میں سے کسی ایک کار نے اسے ٹکر ماردی لڑکا اور اس کا دوست ان سے الجھ پڑے تو خالی پلاٹ میں جہاں ٹرک کھڑے تھے ان لوگوں نے ان کو پکڑ کر خالی پلاٹ میں لیجا کر تشدد کیا جس سے دونوں ہلاک ہوگئے وہ ان کو وہی چھوڑ کر بھاگ گئے۔

لڑکوں کے گھر والے دو دنوں تک انہیں ڈھونڈتے رہے اور پھر ان کی لاشیں وہاں سے ملی یہ خبر سن کر دلہن کا بھی ہارت فیل ہو گیا۔

کہتے ہیں یہ وہی لڑکی ہے جو ان تینوں پلاٹس کے اطراف اپنے دولہے کے قاتلوں کو ڈھنڈتی پھرتی ہے۔ 

ہم نے وہ جگہ چھوڑ دی اور پھر کبھی مڑ کر اس روڈ کی طرف بھی

 نہیں گئے ۔ 😢

جامن کا درخت


انسان کی زندگی میں کچھ واقعات ایسے ہوتے ہیں جو انسان کی زندگی پر گہرے اثرا ت اورگہرے نقوش چھوڑ جاتے ہیں۔ کچھ واقعات تو ا یسے ہوتے ہیں جن کو سن کر لوگ مشکل سے ہی یقین کرتے ہیں مگر ایسے واقعات سچ ہوتے ہیں۔ ایک ایسا ہی واقعہ سنیں جوکہ ہمارے دوستوں کے ساتھ پیش آیا۔


یہ بات کافی پرانی ہے جب ہم سب دوست شام کو گرونڈ سے واپس آ کر اپنے محلے میں جمع ہو جاتے تو خوب محفل لگاتے ۔

ایک دن ہم رات کا کھانا کھا کر گھر سے باہر نکلے تو دوستوں نے بولا آج جمعرات ہے اور آج جن بھوت اور چڑیلوں کا دن ہے میں جن بھوتوں پہ یقین تو رکھتا تھا پر کبھی ان سے آمنا سامنا نہیں ہوا تو میں اس کی بات سن کر ہنس دیا 

اس نے میری طرف غصے سے دیکھا اور بولا یہ جو گاوں سے باہر کھیتوں میں جامن کا درخت ہے اس پہ آج جن بھوت آئے گے اگر نہیں یقین تو تم سب میرے ساتھ جا کر دیکھ لو ۔

ہم سب نے حامی بھر لی اور اس کے ساتھ چلنے کو تیار ہو گئے ۔

میں اس دوست کا نام بتاتا چلو یہاں اس کا نام ندیم تھا اور وہ اکثر رات کو اکیلا کھیتوں میں گھومتا رہتا تھا 

اس لیئے اس پہ کچھ دوستوں نے یقین بھی کر لیا تھا پر ہم نے یقین نہیں کیا 

ہم 5 دوست تھے جس کے نام تھے عابد ناصر ساجد مدثر اور ندیم 

جیسے ہی عشاء کی آذان ہوئی ہم نکل پڑے اس کے ساتھ کھیتوں میں جن بھوت دیکھنے رات کافی گہری ہوئی چلی جا رہی تھی تو ڈر بھی لگ رہا تھا 

ابھی ہمیں چلتے ہوئی دس پندرہ منٹ ہی گزرے تھے ایک کھیت سے بکری کے چھوٹے بچے کے بولنے کی آواز آئی 

عابد نے بولا روکوں یہاں پاس سے کسی جانور کی آواز آرہی ہے سب رک گئے اور خاموشی سے آواز سنے کا انتظار کرنے لگے کے کس طرف سے یہ آواز آرہی ہے 

ابھی تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ بکری کے بچے کی آواز دبارہ سنائی دی ندیم نے فورا بولا آواز اس طرف سے آ رہی ہے جو 2 چار کھیت چھوڑ کر ہی برسن کا کھیت تھا آواز وہاں سے آرہی تھی سردیوں کے دن تھے اور ان دنوں میں برسن عام ہوتا ہے سب دوست اس طرف جانے لگے تو ناصر نے بولا چھوڑو یار جو بھی ہے ہمیں کیا لینا دینا اس سے ہم جس کام کے لئے جا رہے ہیں اس طرف چلو پر کوئی بھی نہیں مانا اور برسن کے کھیت کی طرف بڑھنے لگے سب ہی 

وہاں جا کر دیکھا تو ایک چھوٹا سا بکری کا بچہ وہاں کھیت میں بیٹھا تھا ہم میں سے کوئی کچھ بولتا اس سے پہلے ہی ندیم نے کہا لگتا ہے جو یہاں بکریاں چراوانے آتے ہیں ان کا رہ گیا ہو گا اس کو اٹھا لو صبح پتا لگا کر واپس کر دیں گے سب نے اس کی بات سے اتفاق کیا اور ایسا ہی کیا اس کو ہم نے اٹھا لیا اور اپنی منزل کی جانب بڑھنے لگے رات کافی گہری ہوتی چلی جا رہی تھی اور ہمارے ڈر میں مزید اضافہ بھی ہو رہا تھا کیوں کہ کیھتوں میں طرح طرح کے جانور کی آوازیں آ رہی تھی 

مدثر نے بولا یار ہم کو واپس جانا چاہئے آگے بہت خطرہ ہے سب اس پہ ہنسنے لگے اور اس کو ڈرپوک کہنے لگے خیر وہ خاموشی سے ان کے ساتھ چلتا رہا 

پھر راستے میں ہمیں سیٹی کی آواز آنا شروع ہو گئی سب رک گئے اور ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے ڈر سب کے چہرے سے صاف نظر آرہا تھا پر کوئی بھی یہ نہیں چاہتا تھا کہ ہم واپس جائے اور اللہ کا نام لے کر اس جامن کے درخت کی طرف بڑھنے لگے ابھی تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ ہمیں چلتے ہوئے تو سامنے ہی وہ درخت نظر آگیا ہم سب دوست اس درخت سے تھوڑا ہٹ کر بیٹھ گئے سب سے پہلے تو مدثر نے بولا اس بکری کے گلے میں کوئی رسی وغیرہ ڈال دو تاکہ یہ کہی ادھر اودھر نہ ہو جائے سب دوست رسی ڈھونڈے لگ پڑے اور جلدی ہی ایک چھوٹی سی رسی مل گئی تھی اس کو ہم نے اس کے گلے میں ڈالا اور رسی ناصر کو پکڑا دی اور سب کی نظریں اس درخت پہ جمی تھی دس پندرہ منٹ ہی گزرے تھے کہ اس جامن کے درخت کے اوپر سے ایک بریک سی لال رنگ کی لائیٹ نظر آئی وہ لائیٹ اتنی بریک تھی اور اتنی تیز تھی یہاں بتانا مشکل ہے 

وہ لائیٹ کبھی درخت پہ جاتی کبھی درخت سے نیچے آتی ہمارا خوف کے مارے برا حال ہو رہا تھا اور ساتھ ہی پرسرار آوازیں آنا شروع ہو گئی ہم سب نے اونچی آواز میں ورد پڑھنا شروع کر دیئے کچھ دوست تو وہاں سے بھاگنے کے لئے تیار تھے ہم نے روک رکھا تھا ان کو 

پھر سب نے ہی محسوص کیا کہ لائیٹ اب ہماری طرف بڑھ رہی تھی جب سب نے یہ منظر دیکھا تو وہاں سے بھاگنے میں ہی بہتری سمجھی اور اتنی سپیڈ سے سب وہاں سے الٹے پاوں دوڑے اور ہمارے پیچھے اتنی خوفناک آوازیں بلند ہو رہی تھی بس یہی محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ باکل ہمارے پاس ہی ہیں اور کسی بھی لمحے وہ ہم سب کو نقصان پہنچا سکتی ہیں ہم نے ہمت نہ ہاری اور بھاگتے رہے ورد کرتے رہے اور واپس گاوں آ کر سانس لیا 

جب ہم سب گاوں کی حدود میں پہنچ گئے تو مدثر نے ناصر کی طرف دیکھا اور پوچھا آپ کے پاس بکری کا بچہ تھا وہ کہاں چھوڑ آئے اس نے ہاتھ کی طرف دیکھا تو اس کے ہاتھ میں صرف رسی تھی اس نے بولا کہ جب ہم وہاں سے بھاگ رہے تھے تو یہ صرف رسی ہی تھی بکری کا بچہ کدھر گیا اس کو کچھ معلوم نہیں جب وہاں سے واپس دوڑے تو وہ بکری کا بچہ وہاں ہمارے ساتھ نہیں تھا صرف یہ رسی ہی تھی 

کیا وہ سچ میں بکری کا بچہ تھا یا کوئی اور مخلوق تھی سب دوستوں نے کہاں جو بھی تھا ہم صبح صبح وہاں جا کر ضرور دیکھے گے 

جب صبح ہوئی تو کوئی بھی وہاں جانے کو تیار نہیں تھا سوائے ندیم اور مدثر کے 

وہ دونوں کھیتوں میں گئے اور اسی جگہ گئے تو انہوں نے وہاں بکری کے بچے کو مرا ہو پایا جو جامن کے درخت کے بالکل قریب ہی پڑا تھا اس کی صرف ہڈیاں ہی ہڈیاں نظر آرہی تھی اس بکری کے بچے پہ گوشت کا کوئی ناموں نشان بھی نہیں تھا وہ دونوں سمجھ چکے تھے رات کو جو کچھ بھی ہوا وہ ان کا وہم نہیں تھا 

اس درخت پہ واقعی کچھ ایسا تھا جو ندیم نے بولا تھا اس کے بعد وہ واپس آگئے اور کبھی بھی رات کے ٹائم باہر گھومنے سے توبہ کر لی......ختم شد.....

اب بتاؤ مزا آیا

 کہ نہیں سچی سچی دسو......

خالی گھر


یہ تب کی بات ہے جب میں بہت چھوٹا تھا قریب 8 یا 9 سال کا اور اسوقت ہم اسنسول جو کر انڈیا کا ایک شہر ہے تو میری فیملی کرایہ میں رہا کرتی تھی۔

ہم جس گھر میں رہتے تھے اُس گھر میں ایک امرود کا پیڑ ہوا کرتا تھا اور چونکہ ہمارے والد محترم کافی سخت مزاج کے تھے اسلئے ہم اکثر اُنسے چھپ کر امرود توڑتے تھے کیوں اگر اُنھیں اس بات کا علم ہوجاتا تو پھر ہماری پٹائی پکی تھی۔

چونکہ امرود کا پیڑ چھت سے قریب ہوتا تھا تو میں اکثر رات میں امرود توڑتا تھا۔

ایک بار کی بات ہے لائٹ چلی گئی تو میں نے سوچا کی اچھا موقع ہے امرود پر ہاتھ صاف کیا جائے مگر میں جیسے ہی پیڑ کے قریب پہنچا مجھے کوئی سفید لباس پہنے کوئی امرود کے ڈالی زور زور سے ہلا رہا ہے جیسے نیچے کوئی امرود گرنے کا منتظر ہوں۔

عموماً میں ڈرنے والو میں سے نہیں ہو اسلئے میں چپ چپ نیچے چلے آیا۔

نیچے آنے کے بعد رات بھر میں مجھے بخار ہوگیا اور ہر روز خواب میں ایک آدمی مجھے امرود کی ٹوکری دے رہا ہوتا۔

میں نے کسی سے ذکر نہیں کیا۔

بخار کبھی رہتا کبھی چلا جاتا۔

آپلوگو کو ایک بات بتا دوں ہمارے والد محترم عامل ہے ہمارے گھر میں بےشمار کتابیں ہے ان چیزوں کو لیکر۔

خیر میں نے خواب کا ذکر اپنی والدہ محترمہ سے کیا پہلے تو وُہ میرے خواب کو اتنی سنجیدگی سے نہیں لیا مگر میری حالت دیکھنے کے بعد ابّو کو ساری بتائیں بتائیں۔

ابّو کچھ پڑھ کر دم کیا اور پھر جمرات کو ایک نوی بلیو رنگ کا دھاگہ منگوایا اور میرا سر سے لیکر پیر تک ناپ لیا اور پتہ نہیں کتنی بار اسکا ته بنایا پھر اُس پر کوئی دعا پڑھیں اور پھر مجھے ہاتھ میں اس دھاگے کو رکھنے کا حکم دیا وُہ بھی ہاتھ بند کرکے۔

پھر میرا دوبارہ ناپ لیا تو دھاگہ چھوٹا ہوگا ۔

ابّو نے غصے میں پوچھے تو میں نے ڈر کر امرود والی بات بتا دی۔

ابّو بینا کچھ بولے 1 ہفتے کے بعد گھر خالی کردیئے اور ہم لوگ نئے گھر میں آگئے۔

اور اُسکے بعد جیتنے بھی گھر کرائے پر لیے اسمیں کبھی پیڑ دیکھنا نصیب نہ ہوا۔

تو حضرات بتائیں ابّو نے ایسا کیوں کیا ہوگا اور گھر خالی ہونے کے بعد مجھے پھر کبھی ویسا خواب نہیں آیا۔

موت کا کوئی علاج نہین


 یہ کہانی سچے واقعات پر مبنی ہے...

بہت سال پہلے کی بات ہے ایک گاؤں میں ایک لڑکی تھی، دوسرے بچوں کی طرح اس کو بھی کھیل کود میں بہت مزہ آتا تھا۔ اور بچے تو کسی کی سنتے ہی نہیں ہیں تیز بارش ہو یا تیز دھوپ بچوں کو تو بس کھیلنے سے ہی مطلب ہوتا ہے ۔سخت گرمیوں کا موسم تھا اور دوپہر کا وقت تھا نور اپنی کزن شاہانہ کے ساتھ اس جگہ گئی جہاں وہ ہمیشہ کھیلنے جاتے تھے۔ وہ جگہ ان کے گھر سے تھوڑی ہی دور تھی اور وہاں پر ایک درخت تھا جہاں پے بچیوں نے کھیلنے کے لیے ایک جھولا لگایا ہوا تھا۔ ویسے تو اس درخت کے پاس ہمیشہ ہی لڑکیاں موجود ہوتی تھی پر آج جیسے ہی نور اور اس کی کزن وہاں گئے تو وہاں پر کوئی بھی نہیں تھا، تو انہوں نے کہا کہ چلو اچھا ہے آج ہم خود ہی مزا کریں گے اور نور جلدی سے جاکر جھولے پر بیٹھ گئی اور اس بات پر شہانہ کو بہت غصہ آیا ۔ شاہانہ نے نور سے کہا کہ پہلے مجھے بیٹھنے دو پر نور نے اسے نہیں بیٹھنے دیا اور شہانہ غصے میں چلی گئی۔ نور کو یہ احساس ہی نہیں ہوا کہ نور وہاں پر اب اکیلی رہ گئی تھی ۔اچانک نور کو محسوس ہوا کہ جیسے اسے کوئی جھولے دے رہا ہے ، اور آہستہ آہستہ وہ اور تیز ہوا میں جا رہی تھی، اب وہ خود بھی ڈرنے لگی تھی کہ یہ اس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے ۔ نور وہاں پر چلانے لگی پر وہاں کوئی بھی نہیں تھا جو اس کی مدد کرتا۔ نور کو عجیب عجیب آوازیں سنائی دینے لگیں اور وہ اچانک سے اس جھولے سے گر گئی اور بے ہوش ہوگئی کچھ دیر بعد جب اس کی آنکھ کھلی تو اس نے دیکھا کہ وہ اپنے ہی گھر میں ہے۔ پر وہ کچھ بولنے یا پھر کچھ کرنے کی حالت میں نہیں تھی وہ سب کو بتانا چاہ رہی تھی کہ اس کے ساتھ کیا ہوا پر وہ کچھہ نہیں بول پا رہی تھی۔ دن بہ دن اس کی حالت خراب ہوتی جارہی تھی۔ اس کے ماں باپ نے ہر ڈاکٹر ہر حکیم سے بات کر کے دیکھ لی پر کوئی بھی اس کا علاج نہیں کر پا رہا تھا۔ اور ایک دن نور کے بابا کسی بزرگ کو لے کر آئے اور اس بزرک نے ان کو بتایا کہ نور اب زیادہ دن زندہ نہیں رہ سکتی کیونکہ وہ پوری طرح غیب کے قبضے میں آ گئی ہے پھر بھی اس بزرگ نے اپنی طرف سے پوری کوشش کرلی کہ وہ نور کو بچا لیں، پر کچھ دن بعد ہی پتہ چلا کہ نور اب اس دنیا میں نہیں رہی(سننے میں کچھ یوں آیا کہ مرنے سے کچھ دیر پہلے نور بالکل صحیح ہو گئی تھی اور اس نے نے اپنی ماں کو سب کچھ بتایا جو کچھ بھی اس کے ساتھ ہوا تھا، اور آخری بات جو اس نے بتائی وہ یہ تھی کہ کوئی اس کے کان میں روز کہتا تھا کہ موت کا کوئی علاج نہیں)۔۔۔

امید ہے سب کو کہانی پسند آئے گی۔۔

ایک آٹھ دس سال کی معصوم سی غریب لڑکی


ایک آٹھ دس سال کی معصوم سی غریب لڑکی بک اسٹور پر چڑھتی ہے اور ایک پینسل اور ایک دس روپے والی کاپی خریدتی ہے اور پھر وہیں کھڑی ہو کر کہتی ہے انکل ایک کام کہوں کروگے؟

جی بیٹا بولو کیا کام ہے؟

انکل وہ کلر پینسل کا پیکٹ کتنے کا ہے، مجھے چاہیے، ڈرائنگ ٹیچر بہت مارتی ہے مگر میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں نہ ہی امی ابو کے پاس ہیں، میں آہستہ آہستہ کرکے پیسے دے دوں گی.

شاپ کیپر کی آنکھیں نم ہیں، بولتا ہے بیٹا کوئی بات نہیں یہ کلر پینسل کا پیکٹ لے جاؤ لیکن آئندہ کسی بھی دکاندار سے اس طرح کوئی چیز مت مانگنا، لوگ بہت برے ہیں، کسی پر بھروسہ مت کیا کرو.

جی انکل بہت بہت شکریہ میں آپ کے پیسے جلد دے دوں گی اور بچی چلی جاتی ہے.

ادھر شاپ کیپر یہ سوچ رہا ہوتا ہے کہ اللہ نہ کرے اللہ نہ کرے اگر ایسی بچیاں کسی وحشی دکاندار کے ہتھے چڑھ گئیں تو زینب کا سا حال ہی ہوگا.

ٹیچرز سے گذارش ہے خدارا اگر بچے کوئی کاپی پینسل کلر پینسل وغیرہ نہیں لا پاتے تو جاننے کی کوشش کیجئے کہ کہیں اس کی غربت اس کے آڑے تو نہیں آ رہی، اور ہو سکے تو ایسے معصوم بچوں کی تعلیم کے اخراجات آپ ٹیچر حضرات مل کر اٹھا لیا کریں، یقین جانیں ہزاروں لاکھوں کی تنخواہ میں سے چند سو روپے کسی کی زندگی نہ صرف بچا سکتے ہیں بلکہ سنوار بھی سکتے ہیں۔

شکریہ

یونیورسٹی سے آتے ھوئے ایک بھکاری پر نظر پڑی


یونیورسٹی سے آتے ھوئے ایک بھکاری پر نظر پڑی جو خاصی دھوپ میں بیٹھا ھوا تھا.. جس کے نہ ہاتھ تھے اور نہ ھی پاؤں.. جس کے اوپر بہت سی مکھیاں بیٹھی تھیں اور وہ ان کو اڑا بھی نہیں سکتا تھا.. کچھ دیر بعد مجھ پر یہ انکشاف ھوا کہ وہ نہ بول سکتا ھے نہ ھی سن سکتا ھے.. وہ بھیک مانگنے کے لئے تو بیٹھا ھوا تھا لیکن صدا لگانے کے بھی قابل نہیں تھا..


میں مُسلسل اس کو دیکھتا اور یہ سوچتا رھا کہ اس بھکاری کی جگہ میں بھی تو ھو سکتا تھا پھر اس کی جگہ پر میں کیوں نہیں..؟؟


میں نے تو کبھی کوئی ایسا کام نہیں کیا جس کی وجہ سے میں اس حال میں نہیں.. آخر میں کیوں نہیں اس جگہ پر..؟؟ مجھے کیوں الله نے ویسا نہیں بنایا..؟؟ وہ چاھتا تو مجھے دنیا کا مظلوم ترین انسان بنا دیتا ' پر اس نے نہیں بنایا..


میں ساری زندگی بھی سجدے میں رھوں تو بھی اس کا شکر ادا نہیں کر سکتا.. ھاتھ ' پاؤں ' آنکھیں ' کان ' سب کچھ تو دے رکھا ھے الله نے..


وہ چاھتا تو مجھے بھی دنیا میں محروم کر دیتا لیکن مجھے تو الله مسلسل عطا کیے جا رھ ھے.. عطا پر عطا ' مسلسل مہربانی.. میری نافرمانیوں ' کوتاھیوں کے باوجود مجھے دیتا ھی چلا جا رھا ھے الله..


اس سارے رحم و کرم کے بعد بھی میں شکر کیوں نہ کروں..؟؟


اِن آنکھوں کا جن سے میں دیکھ سکتا ھوں..

اس زبان کا جس سے میں ذکر کر سکتا ھوں..

ان ھاتھوں کا جن سے میں دعا مانگ سکتا ھوں..


الله کی دی ہوئی ہر ہر نعمت کا آخر ھم کیوں شکر ادا نہ کریں..؟؟ اور شکر کا سب سے احسن طریقہ یہ ھے کہ ھم ابھی سے ' آج سے اللہ کی اطاعت اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی کا عہد کر لیں..


پورے خلوصِ دل سے_________!!!

دوست اور گوگل


ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺩﻭﺳﺖ ﮐﻮ ﮔﮭﺮ ﺑﻼﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﺭﯾﺴﺮﭺ ﺍﺱ ﮐﮯ

ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺭﮐﮫ ﺩﯼ۔۔۔۔ ﮔﻮﮔﻞ ﺳﮯ ﺳﺮﭺ ﮐﯿﮯ ﮐﻮئی ﮈﯾﮍﮪ

ﮐﺮﻭﮌ ﺻﻔﺤﺎﺕ ﺗﮭﮯ۔۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ

ﻣﺤﻨﺖ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﺎ۔۔۔ ﺳﺐ ﭘﮍﮪ ﻟﮯ ﻣﯿﺮﺍ ﺑﮭﺎئی۔۔۔

ﻭﮦ ﮐﭽﮫ ﻧﮧ ﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﮨﻮﮮ ﭘﮍﮬﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ۔۔۔۔

ﺟﻮﮞ ﺟﻮﮞ ﻭﮦ ﭘﮍﮬﺘﺎ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭼﮩﺮﮮ ﮐﺎ ﺭﻧﮓ

ﺑﺪﻟﺘﺎ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔۔۔ ﮐﺒﮭﯽ ﺷﺪﯾﺪ ﻗﺴﻢ ﮐﺎ ﻏﻀﮧ۔۔۔ ﮐﺒﮭﯽ

ﺑﮩﺖ ﺗﺮﺱ۔۔۔۔ ﮐﺒﮭﯽ ﮨﻤﺪﺭﺩﯼ ﮐﮯ ﺟﺬﺑﺎﺕ۔۔۔۔ ﺍﺱ ﮐﮯ

ﭼﮩﺮﮮ ﮐﮯ ﺍﯾﮑﺴﭙﺮﯾﺸﻨﺰ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺑﺪﻝ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﺟﺲ

ﻃﺮﺡ " ﮈﺭ " ﻓﻠﻢ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﮦ ﺭﺥ ﮐﮯ " ﮐﺮﻥ ﻣﯿﺮﯼ ﮨﮯ" ﺍﻭﺭ

"ﮐﺮﻥ ﻣﯿﺮﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ" ﮐﮩﺘﮯ ﮨﻮﮮ ﺑﺪﻟﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔۔۔ ﻭﮦ ﮐﺒﮭﯽ

ﮐﺒﮭﯽ ﺳﺮ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﮩﺖ ﺑﮯ ﺑﺴﯽ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﺘﺎ۔۔۔۔۔

ﭼﺎﺭ ﮔﮭﻨﭩﮯ ﮐﯽ ﻋﺮﻕ ﺭﯾﺰﯼ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺳﺮ ﺍﭨﮭﺎﯾﺎ

ﺗﻮ ﺍﺱ کی ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺁﻧﺴﻮﻭﮞ ﺳﮯ ﻟﺒﺮﯾﺰ ﺗﮭﯽ۔۔۔ ﺍﺱ ﻧﮯ

ﺍﻧﺘﮩﺎﯼ ﺑﯿﭽﺎﺭﮔﯽ ﮐﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﺎ " ﺍﺳﺪ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﭽﮫ

ﺳﻤﺠﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﺁ ﺭہا۔۔۔ ﯾﮧ ﺳﺐ ﮐﯿﺎ ﺩﮮ ﺩﯾﺎ ﺗﻢ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ۔۔

ﺍﺗﻨﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﻗﺼﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﻮﮞ ﭘﮍﮬﻮﮞ ﯾﺎﺭ۔۔۔۔ ﺗﻢ

ﭼﺎﮨﺘﮯ ﮐﯿﺎ ﮨﻮ۔۔۔ ﺫﺭﺍ ﺷﺎﺭﭦ ﻣﯿﮟ ﺑﺘﺎ ﺩﻭ ﭘﻠﯿﺰ "

ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﮨﺎﺗﮫ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﮍﮮ ﭘﯿﺎﺭ

ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﯾﮧ ﺍﻥ ﺍﯾﮏ ﮐﺮﻭﮌ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﯽ ﮐﮩﺎﻧﯽ ﮨﮯ ﺟﻨﮭﻮﮞ

ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻭﺳﺘﻮﮞ ﮐﺎ ﺩﻋﻮﺕ ﺍﻓﻄﺎﺭ ﭘﺮ ﺑﻼﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺯﺑﺮﺩﺳﺖ

ﺍﻓﻄﺎﺭﯼ ﮐﺮﻭﺍﯼ۔۔۔ ﻣﺰﮮ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ

ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﻣﻮﺕ ﻭﺍﻗﻊ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﯼ ﺍﻓﻄﺎﺭﯼ ﮐﺮﺍﻧﮯ ﺳﮯ۔۔۔

ﺗﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﺟﮕﺮ ﺗﺠﮭﮯ ﮐﺲ ﭼﯿﺰ ﮐﺎ ﮈﺭ ﮨﮯ۔۔۔ ﮐﻤﯿﻨﮧ ﻧﮧ ﮨﻮ

ﺗﻮ" ۔۔۔۔

ﻗﺎﺿﯽ ﻣﺤﻤﺪ ﺍﺳﺪ ﮐﯽ ﺷﮩﺮﮦ ﺁﻓﺎﻕ ﮐﺘﺎﺏ "ﻣﯿﺮ

ﮮ ﮐﻨﺠﻮﺱ

ﺩﻭﺳﺖ " ﺳﮯ ﺍﻗﺘﺒﺎﺱ

کیسٹ رینٹل والی دکان

 : دکان

1980 کی بات ہے، 

یہ وہ زمانہ ہے جب پورے محلے میں ایک یا دو وائر والے فون ہوا کرتے تهے، دس سال بعد فون لگنا خوش نصیبی اور تعلقات کی بدولت ہی ممکن تها، اسی تعداد میں گاڑیاں، دوپہر اور شام کے اسکول، لوڈشیڈنگ نام کی کوئی چڑیا نہ تهی، ہاں بارش کی بوند گرتے ہی بجلی چلی جاتی تھی پھر بارش کے بعد آ بھی جاتی تهی، بلیک اینڈ وائٹ لکڑی کے ڈبوں میں ٹی وی ہوا کرتے تهے، سونی کے کلر ٹی وی اور 50 کلو والے سلور وی سی آر ایک دو گھروں میں ہوتے تهے، انڈین فلمیں دیکھی جاتی تهیں وہ بھی مانگ تانگ کر، ابھی محلے میں کیسٹ رینٹل والی دکانوں اور ان سے نیفے میں کیسٹ چھپا کر لانے کا بھی رواج نہیں پڑا تها، 

ایک ہی چینل PTV، شام 4 سے 5 بجے بچوں کے پروگرام، 8 بجے ڈرامہ اور 9 بجے خبریں، وارث، ان کہی اور تنہائیاں جیسے ڈراموں کے وقت گلیاں سنسان، 

جمعرات ہاف ڈے اور جمعہ چهٹی ہوتی تهی، نئے کپڑے عید، بقرعید، شادی بیاہ اور صرف ضرورت کے وقت بنائے جاتے تهے، عید کے دن ایک رنگ اور ایک تھان سے خاندانی ٹیلر یا پھر اکثر نانی کے ہاتهوں سلے کپڑے پہننے کا رواج عام تها، عید والے دن لکڑی کی تلوار، منہ میں مٹھا پان، ایک ہاتھ میں "بوتل"(کولڈ ڈرنک رواج میں بہت بعد میں آئی😜😜😜)، اور دوسرے میں اگلو کنگ کون لینا معراج ہوتی تھی عید کی،ہر محلے میں 3 کرکٹ ٹیمیں بڑے لڑکے، چھوٹے لڑکے اور بچے، عصر کے بعد سے کھیل کود شروع ہوتا تھا اور مغرب کی آذان پر اختتام، سردیوں میں رات کو بیڈمنٹن اور اولمپکس وغیرہ کے زمانے میں ہاکی بھی کهیلی جاتی تهی، پتنگ بازی کا ایک دور، لٹو اور کنچوں کے "بین الگلی" ٹورنامنٹس عام تهے، گرمیوں کی چھٹیوں میں دوپہر کو "پٹھو باری" بھی ہوتی تھی. ..

کیا دور تھا سب کو سب کی فکر، سب کو سب کا خیال، سوائے بزرگوں کے شادی شدگان بال بچے دار جوان بھی سگریٹ بچ بچا کر پیتے تھے کہ کوئی بزرگ دیکھ نہ لے، گلی محلے میں شادی کا مطلبپبدرە بیس دن پہلے سے پورے محلے میں ڈهولکی کی آواز، لڑکیوں کے کهنکتے قہقہے، لڑکوں کا پیسنہ پسینہ ہو کر کنکهیوں سے نظر کرنا اور پهر جهینپ کر خود ہی لال بهبوخا ہو جانا، دور پرے کے رشتہ داروں کی آمد اولے کے مختلف گھروں میں قیام، گھر سے شادی، ہال وغیرہ میں دعوت سبکی کی بات، کسی کے گهر میت ہوجائے تو ہفتوں لوگ گلی میں ہنستے نہ تهے کہ کہیں پڑوسی گهر والوں کو دکھ نہ پہنچے،

پانی کی سبیل، شب براءت کا حلوہ سب بناتے اور کهاتےتهے، ہم جیسے گھرانے میں بهی بنتا تھا، 

اچھا وقت تھا.... 

خالص لوگ، خالص اشیاء، خالص ایمان، اس وقت نظر نیاز، کهانے پینے، ملنے جلنے سے ایمان خراب نہیں ہوتا تھا ....

ہائے کیا زمانہ تھا........


منقول .


دودھ کا گلاس

 

ایک بار ، ایک غریب لڑکا تھا جس نے گھر گھر جاکر مختلف اشیا فروخت کرکے روزی کمائی تھی۔ اس طریقے سے اس نے اپنے اسکول کی ادائیگی کے لئے رقم کمائی تھی۔


ایک دن ، جب وہ معمول کے مطابق گھر گھر جا رہا تھا ، اسے بہت بھوک اور کمزور محسوس ہوا۔ اسے لگا کہ وہ کچھ قدم بھی نہیں چل سکتا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ گھر میں کھانا مانگوں گا۔ اس نے دروازہ کھٹکھٹایا اور ایک خوبصورت نوجوان لڑکی کو دروازہ کھولتے ہوئے دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ بہت ہچکچاہٹ کے ساتھ اس نے لڑکی سے پانی کا گلاس طلب کیا۔


نوجوان لڑکی نے اس کی حالت کو سمجھا اور اسے دودھ کا ایک بہت بڑا گلاس پیش کیا۔ حیرت زدہ نظروں سے ، لڑکے نے بہت آہستہ سے دودھ پیا۔


"میں اس دودھ کا کتنا مقروض ہوں؟" اس نے اس سے پوچھا۔


لڑکی نے جواب دیا ، "میں اس کے لئے کوئی رقم نہیں چاہتا ہوں۔"


لڑکے نے دل کے نیچے سے لڑکی کا شکریہ ادا کیا اور وہیں سے رخصت ہوگئے۔


سال گزرتے چلے گئے۔ جوان لڑکی بڑی ہوئی۔ اس کی جوانی میں ، بدقسمتی سے ، وہ بیمار ہوگئی اور اسے نایاب قسم کے اعصابی عارضے کی تشخیص ہوئی۔ بہت سے تجربہ کار ڈاکٹروں کو اس کی حالت پر حیرت کا سامنا کرنا پڑا ، اور اسے جدید ترین سہولیات کے ساتھ سٹی اسپتال میں داخل کرایا گیا۔


اسپتال کے معروف نیورو ماہر ڈاکٹر کیون کو اس کے معائنے کے لئے بلایا گیا۔ یہاں تک کہ اپنی غیر معمولی مہارت کے باوجود ، ڈاکٹر کیون نے بچی کی بیماری کا علاج کرنا بہت مشکل محسوس کیا۔ تاہم ، مہینوں تک جاری رہنے والی ثابت قدمی اور محنت سے ، آخر کار وہ اس بیماری کو قابو کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ محتاط دواؤں اور نگرانی سے ، آخر میں بچی بالکل ٹھیک ہوگئی۔


سب نے ڈاکٹر کی تعریف کی ، لیکن بچی اس بات سے کافی پریشان تھی کہ اسپتال کا بل کتنا آئے گا۔ اس کے اہل خانہ کے پاس بینک میں تھوڑا سا پیسہ بچا تھا ، جو اس نام نہاد اسپتال میں اتنے لمبے علاج کی ادائیگی کے لئے کافی نہیں تھا۔


آخر کار بچی کو اسپتال کا بل دیا گیا۔ کانپتے ہوئے ہاتھوں سے ، اس نے اسے کھولا۔ وہ یہ دیکھ کر دنگ رہ گ. کہ بل کو ختم اور منسوخ کردیا گیا ہے ، اور اس کے نیچے ڈاکٹر کیون کے دستخط شدہ ایک نوٹ تھا۔


"بل نے سالوں پہلے دودھ کے گلاس کے ساتھ ادائیگی کی تھی!"


اخلاقیات: ایک اچھ anotherی م

وڑ دوسرے کو جنم دیتا ہے۔

ایک انوکھا تجربہ

 

یہ ایک سرد اور تیز رات تھی۔ میں اور میرے دوست نے ایک طویل عرصے کے بعد ملاقات کی تھی ، اور گھنٹوں گپ شپ کرتے رہے تھے۔ ہمیں گزرتے وقت کا ذکر نہیں ہوا ، اور جلد ہی رات کے دس بجنے کے قریب تھا۔ ہم نے اپنے گھر جانے کے لئے آٹو رکشہ لینے کا فیصلہ کیا۔


بارش شروع ہوگئی ، اور ہم جلدی سے آٹو رکشہ میں جاکر اپنی جگہ پہنچ گئے۔ ایک آٹو رکشہ ہمارے لئے نہیں رکا تھا ، سوائے ایک کے۔


ڈرائیور نے ہم سے پوچھا کہ ہم کہاں جانا چاہتے ہیں اور ہم نے اس جگہ کو بتایا۔ کرایے کے بارے میں کچھ کہے بغیر ، اس نے کہا ، "براہ کرم اندر آجائیں!" ہم نے اس کا شکریہ ادا کیا اور اندر داخل ہوگئے۔


چونکہ بہت سردی تھی ، اس لئے میں نے ڈرائیور سے کہا کہ وہ کسی بھی چھوٹے ریستوراں یا چائے کی دکان پر روکے۔ ہم ایک کپ گرم چائے لینا چاہتے تھے۔ ڈرائیور ایک چھوٹے سے ریستوراں کے قریب رکا۔


ہم نے چائے کا آرڈر دیا ، اور ڈرائیور سے کہا کہ وہ ہمارے ساتھ چلے اور ایک کپ چائے پی۔ ڈرائیور نے انکار کردیا۔ میں نے اصرار کیا ، لیکن اس نے پھر شائستگی سے انکار کردیا۔


میرے دوست نے پوچھا ، "کیا آپ اس دکان سے چائے نہیں لیں گے یا کیا؟"


ڈرائیور نے جواب دیا ، "نہیں جناب ، مجھے اب چائے پینے کا احساس نہیں ہوتا ہے۔"


میں نے پھر پوچھا ، "لیکن ، کیوں؟ ایک کپ چائے سے کوئی نقصان نہیں ہوگا۔"


مسکراتے ہوئے ، ڈرائیور نے جواب دیا ، "آپ کا شکریہ ، لیکن مجھے افسوس ہے۔"


میرے دوست نے پوچھا ، "کیا آپ باہر کھانے پینے کے خلاف ہیں؟"


ڈرائیور نے کہا ، "نہیں!"


میں واقعتا his اس کے سلوک پر حیرت زدہ تھا اور اپنے دوست سے کہا کہ وہ اسے مجبور نہ کریں۔


15 منٹ میں ، ہم اپنے گھر پہنچ گئے۔ ہم نے کرایہ ادا کیا اور ڈرائیور نے ہمارا شکریہ ادا کیا۔


ایک تحریک پر ، میں نے اسے روک لیا ، کیونکہ میں واقعتا really اس سے پوچھنا چاہتا تھا کہ اس نے ہمارے ساتھ ریستوراں میں چائے پینے سے کیوں انکار کردیا۔


اس نے ایک لمحے کے لئے سوچا اور جواب دیا ، "جناب ، میرے بیٹے نے ایک دوپہر ایک حادثے میں انتقال کیا۔ میرے پاس اس کے جنازے کے لئے اتنا پیسہ نہیں ہے۔ لہذا میں نے ایک حلف لیا کہ یہاں تک کہ پانی بھی نہیں پیوں گا ، یہاں تک کہ میں اپنے پیسے کماؤں گا۔" بیٹے کا جنازہ۔ اسی وجہ سے جب میں نے آپ کی پیش کش کی تو چائے نہیں پی تھی۔ براہ کرم غلط فہمی نہ کریں۔


ہم دونوں بکھر گئے اور بیٹے کی آخری رسومات کے لئے اس سے زیادہ رقم کی پیش کش کی۔


انہوں نے شائستگی سے انکار کردیا ، "آپ کی سخاوت کا شکریہ جناب۔ ایک یا دو گھنٹوں میں ، اگر مجھے ایک یا دو اور گراہک مل گئے تو میں اپنی ضرورت کی رقم کما لوں گا۔" اور وہ جگہ سے چلا گیا۔


ہم ان کے ک

ردار اور دیانت کی طاقت پر حیران تھے۔

بھیڑیا اور میمنے


ایک بار ، ایک چھوٹا بھیڑ بھیڑ بھیڑ کے ریوڑ کے ساتھ ، گھاس کا میدان میں چر رہا تھا۔ بہت شرارتی ہونے کی وجہ سے ، چھوٹا بھیڑ بھیڑ بکریوں سے کچھ فاصلے پر پھرتا تھا۔ اس نے وہاں پائے جانے والے تازہ اور مزیدار گھاس سے لطف اندوز ہونا شروع کیا۔ یہ اپنے گروپ سے بہت دور آچکا تھا ، لیکن اس سے بے خبر تھا۔


بھیڑ بھی کسی دوسری حقیقت سے ناواقف تھا: ایک بھیڑیا اس کی قریب سے پیروی کررہا تھا!


جب بھیڑ کے بچے کو معلوم ہوا کہ وہ اپنا راستہ کھو چکا ہے اور وہ ریوڑ سے بہت دور ہے تو اس نے واپس جانے اور ان میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔ تاہم ، بھیڑباہا اس کے پیچھے کھڑا ایک بھوکا اور چالاک بھیڑیا دیکھ کر دنگ رہ گیا۔


بھیڑ کے بچے کو احساس ہوگیا کہ بھیڑیا کے حوالے کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھا۔


بھیڑ بکرے نے بھیڑیا سے پوچھا ، "کیا آپ مجھے کھانے پینے جارہے ہیں؟"


بھیڑیا بولا ، "ہاں ، کسی بھی قیمت پر!"


بھیڑ کے بچے نے پھر کہا ، "لیکن کیا آپ براہ کرم کچھ اور وقت انتظار کر سکتے ہیں؟ میں نے ابھی بہت گھاس کھا لیا ہے اور میرا پیٹ گھاس سے بھرا ہوا ہے۔ اگر اب آپ مجھے کھائیں گے تو ، آپ کو ایسا محسوس ہوگا جیسے آپ گھاس کھا رہے ہیں! تو براہ کرم گھاس کو ہضم ہونے تک انتظار کرو۔ "


بھیڑیا نے اتفاق کیا ، "اوہ ، میں انتظار کروں گا۔ آپ میرے سامنے حاضر ہیں اور میں مزید کچھ وقت انتظار کرسکتا ہوں!"


بھیڑ نے بھیڑیا کا شکریہ ادا کیا۔


کچھ وقت کے بعد ، بھیڑیا بھیڑ کے بچے کو مارنے کے لئے تیار ہوگیا ، لیکن بھیڑ نے اسے دوبارہ روک لیا۔


"پیارے بھیڑیا ، براہ کرم کچھ اور وقت انتظار کریں۔ گھاس کو ابھی ہضم ہونا باقی ہے۔ اگر آپ اب مجھے کھائیں گے تو ، آپ کو میرے پیٹ میں بہت گھاس نظر آئے گا! مجھے ناچنے دو اور پھر یہ آسانی سے ہضم ہوجائے گا۔"


بھیڑیا راضی ہوگیا۔


چھوٹا بھیڑ بھیڑ تھوڑی دیر کے لئے ڈھونڈتا رہا ، اور پھر اچانک رک گیا۔


بھیڑیا نے استفسار کیا کہ کیا ہوا ہے؟


بھیڑ نے کہا ، "میں ٹھیک سے ناچ نہیں سکتا کیونکہ میوزک نہیں ہے۔ آپ یہ گھنٹی میرے گلے میں دیکھ رہے ہو؟ کیا آپ اس گھنٹی کو کھول کر زور سے بج سکتے ہیں؟ پھر میں تیز رقص کرسکتا ہوں اور میرے پیٹ میں گھاس بھی تیزی سے ہضم ہوجائے گی۔ "


بھیڑیا ، بھیڑ کے کھانے کی خواہش پر قابو پالیا ، کچھ بھی کرنے کو تیار تھا۔ اس نے بھیڑ کے گلے میں بندھی گھنٹی کو ہٹایا اور پوری طاقت سے اس کی گھنٹی بجی۔


ادھر چرواہے چھوٹے بھیڑ کے بچے کی تلاش کر رہا تھا اور اس نے گھنٹی بجنے کی آواز سنی۔ اس نے بھیڑیا اور میمنے کو دیکھا۔ وہ لاٹھی کی طرف لپک اٹھا۔ چرواہے کو لاٹھی سے دیکھ کر بھیڑیا بھاگ گیا ، اور میمنا بچ گیا!


جسمانی طاقت کافی نہیں ہے۔ بعض اوقات ، ذہین ذہانت کے حامل کمزور افراد جسمانی طور 

پر مضبوط لوگوں پر قابو پا سکتے ہیں!


ایک کسان اور اس کی بیوی


ایک کسان نے اپنی بیوی سے کہا ، "تم سست ہو۔ آپ آہستہ اور سست روی سے کام کرتے ہیں۔ تم اپنا وقت ضائع کرو۔ "


شوہر کی بات پر بیوی ناراض ہوگئی۔


اس نے اپنے شوہر سے کہا ، "تم غلط ہو۔ کل گھر پر رہو۔ میں میدان میں جاؤں گا۔ میں وہاں تمہارا کام کروں گا۔ کیا آپ گھر پر میرے کام انجام دیں گے؟ "


کسان نے خوشی سے کہا ، "بہت اچھی بات ہے۔ میں آپ کے کام گھر پر ہی کروں گا۔ "


بیوی نے کہا ، "گائے کو دودھ دو۔ سواروں کو کھانا کھلاؤ۔ برتن برباد کریں۔ ہماری مرغی کا خیال رکھنا۔ سوت کاتیں۔ "


وہ عورت کھیت میں گئی۔ کسان واپس گھر ہی رہا۔ وہ ایک برتن لے کر گائے کے پاس گیا اس کو دودھ پلایا۔ اس نے گائے کو دودھ پلانے کی کوشش کی۔ اسے اچھی کک ملی۔ اس کے بعد وہ سور طرز پر گیا۔ اس نے بیم کے خلاف اس کے سر کو نشانہ بنایا۔ وہ مرغی کو کھلانے گیا۔ وہ سپن کرنا بھول گیا تھا۔


جب شام ہوئی تو بیوی کھیت سے لوٹی۔ کسان نے شرم سے سر جھکا لیا۔ اس کے بعد ، اسے اپنی بیوی سے کوئی غلطی نہیں ملی۔ وہ ایک طویل عرصے تک خوشی خوشی ایک ساتھ رہے۔


ایک باپ اپنے بیٹے سے سبق سیکھتا ہے

 

ویلن ایک بڑھئی تھا۔ وہ ایک گاؤں میں رہتا تھا۔ اس کی والدہ کا ایک لمبے عرصے بعد انتقال ہوگیا۔ اس کے بوڑھے والد ، کپن ، ویلن کے ساتھ رہتے تھے۔ کپپن بہت کمزور تھا۔ وہ اچھی طرح سے چل بھی نہیں سکتا تھا۔ وہ بہت کمزور تھا۔ یہ اس وجہ سے تھا کہ ویلن نے اسے کافی کھانا نہیں دیا تھا۔ اس نے اپنے والد کو ایک چھوٹی مٹی کی پلیٹ دی تھی۔ یہاں تک کہ پلیٹ میں چاول کی ایک چھوٹی سی مقدار بہت زیادہ دکھائی دی۔ ویلن ایک برا آدمی تھا۔ وہ شرابی بھی تھا۔ شراب پینے کے بعد اس نے اپنے والد کو بری طرح سے زیادتی کا نشانہ بنایا۔


ویلان کا ایک بیٹا تھا۔ اس کا نام متھو ہے۔ متھو ابھی دس سال کا تھا۔ وہ بہت اچھا لڑکا تھا۔ اسے اپنے دادا سے محبت تھی۔ اسے اپنے دادا کا بہت احترام تھا۔ اسے اپنے والد کا طرز عمل اور کردار پسند نہیں تھا ، کیوں کہ اس کے والد اپنے دادا کے ساتھ بہیمانہ سلوک کررہے تھے۔


ایک دن کپن اپنا کھانا مٹی کی پلیٹ میں کھا رہا تھا جو اس کے بیٹے نے اسے دیا تھا۔ مٹی کی پلیٹ نیچے گر گئی۔ پلیٹ کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے۔ کھانا بھی فرش پر گر گیا۔ ویلان کمرے کے دوسرے سرے پر کام کر رہا تھا۔ اس نے ٹوٹی ہوئی پلیٹ کو دیکھا۔ وہ اپنے والد سے سخت ناراض تھا اور اپنے والد کو گالی دینے کے لئے بہت سخت الفاظ استعمال کرتا تھا۔ بوڑھے آدمی کو برا لگا کہ کیا ہوا۔ اسے اپنی غلطی پر افسوس ہوا۔ ویلن کے الفاظ نے اسے بہت گہرا زخمی کیا۔


ویلان کے بیٹے ، متھو نے یہ دیکھا۔ وہ اپنے والد کو پسند نہیں کرتا تھا۔ اس کے والد اپنے دادا کے ساتھ بد سلوکی کر رہے تھے۔ وہ اپنے والد کے خلاف بولنے سے ڈرتا تھا۔ وہ اپنے دادا سے غمزدہ تھا۔ لیکن وہ اپنے دادا کی حمایت میں کھڑے ہونے کے لئے طاقتور نہیں تھا۔


اگلے دن متو نے اپنے والد کی کارپینٹری کے کچھ اوزار اور لکڑی کا ایک ٹکڑا لیا۔ اس نے لکڑی کی پلیٹ بنانے کے اوزار کے ساتھ کام کیا۔ اس کے والد نے اسے کام کرتے دیکھا۔


اس نے پوچھا ، "متھو تم کیا بنا رہے ہو؟"


"میں لکڑی کی پلیٹ بنا رہا ہوں!" متو نے جواب دیا۔


“لکڑی کی پلیٹ! اس کے والد نے پوچھا۔


"میں ، یہ آپ کے لئے بنا رہا ہوں۔ جب آپ میرے دادا کی طرح بوڑھے ہوجائیں گے ، آپ کو کھانے کے لئے پلیٹ کی ضرورت ہوگی۔ زمین کی چٹائی سے بنی پلیٹ بہت آسانی سے ٹوٹ جاتی ہے۔ تب میں تمہیں سخت ڈانٹ سکتا ہوں۔ لہذا ، میں آپ کو لکڑی کی پلیٹ دینا چاہتا ہوں۔ یہ اتنی آسانی سے نہیں ٹوٹ سکتا ہے۔ "


یہ سن کر بڑھئی حیران ہوا۔ صرف اب اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ اس کے والد ویلن پر مہربان تھے انہوں نے ویلن کی دیکھ بھال بہت اچھی طرح سے کی تھی۔ اب ، وہ بوڑھا تھا۔ ویلن اپنے والد کے ساتھ سخت سلوک کر رہا تھا۔ ویلن اب اپنے طرز عمل سے بہت افسردہ تھا۔ اسے اپنی غلطیوں کا احساس ہوا۔ اس کے بعد وہ ایک مختلف شخص بن گیا۔


اس دن سے ، ویلن نے اپنے والد کے ساتھ بڑے احترام کے ساتھ سلوک کیا۔ اس نے بھی شراب نوشی ترک کردی۔ ویلن نے اپنے بیٹے سے سبق سیکھا۔


آپ کو ہر وقت اپنے والدین کی عزت کرنی چاہئے۔ یہ آپ کا فرض ہے۔

 یہ آپ کی برکات لاتا ہے۔

ایک اچھا لڑکا


ایک بوڑھی عورت سڑک عبور کرنا چاہتی تھی۔ وہ کمزور تھی۔ لہذا وہ مدد چاہتی تھی۔ وہ لمبی انتظار کرتی رہی۔ وہ تنہا انتظار کرتی رہی۔


اس نے اسکول کے لڑکوں کی ایک بڑی تعداد دیکھی۔ وہ ہنس رہے تھے اور باتیں کررہے تھے۔ وہ گھر جارہے تھے۔ تو وہ خوش تھے۔ انہوں نے بوڑھی عورت کی طرف دیکھا۔ انہوں نے اس کی مدد نہیں کی۔ وہ چل پڑے۔


لیکن ایک لڑکا بوڑھی عورت کے پاس گیا۔ اس نے اس سے کہا ، "ماں! کیا آپ سڑک پار کرنا چاہتے ہیں؟ میں آپ کی مدد کروں گا۔ میں تمہیں دوسری طرف لے جاؤں گا۔ "


لڑکے نے بوڑھی عورت کی مدد کی۔ اس نے اسے سڑک کے اس پار لے لیا۔ اس نے ایک نیک عمل کیا۔ وہ خوش تھا. اس نے کہا ، "میں نے کسی کی ماں کی مدد کی۔ تو ، کوئی میری عمر کی عمر میں میری ماں کی مدد کرے گا۔ "


"پیارے خدا! اس اچھے لڑکے کے ساتھ حسن سلوک کرو ، "بوڑھی عورت نے اپنی دع

ا میں کہا۔

ایک طاقتور کہانی

 

ایک شخص اور ایک نو عمر کشور لڑکے نے ایک ہوٹل میں چیک کیا اور انہیں اپنے کمرے میں دکھایا گیا۔ استقبالیہ والے نے مہمانوں کے پرسکون انداز اور لڑکے کی ہلکی سی کیفیت کو نوٹ کیا۔ بعد میں ، اس شخص اور لڑکے نے ہوٹل کے ریستوراں میں رات کا کھانا کھایا۔


عملے نے ایک بار پھر دیکھا کہ دونوں مہمان بہت پرسکون ہیں اور لگتا ہے کہ لڑکا اپنی کھانے میں دلچسپی نہیں لے رہا ہے۔


کھانے کے بعد ، لڑکا اپنے کمرے میں گیا اور وہ شخص استقبالیہ والے سے منیجر کو دیکھنے کے لئے گیا۔ استقبالیہ والے نے ابتدا میں پوچھا کہ آیا خدمت یا کمرے میں کوئی پریشانی ہے ، اور چیزیں ٹھیک کرنے کی پیش کش کی ہے ، لیکن اس شخص نے کہا کہ اس طرح کا کوئی مسئلہ نہیں ہے اور اس نے اپنی درخواست دہرا دی۔


جب منیجر پیش ہوا ، تو وہ اسے ایک طرف لے گیا اور سمجھایا کہ وہ رات میں اپنے چودہ سالہ بیٹے کے ساتھ ہوٹل میں گزار رہا ہے ، جو شدید بیمار تھا ، شاید اس کی وجہ سے۔ لڑکا بہت جلد تھراپی سے گزرنا تھا ، جس کی وجہ سے وہ اپنے بالوں سے محروم ہو جائے گا۔ وہ اس ہوٹل میں ایک ساتھ بریک لینے آئے تھے اور اس وجہ سے کہ اس رات اس لڑکے نے اپنا سر منڈوانے کا ارادہ کیا ، بجائے اس کے کہ اس بیماری نے اسے پیٹا ہے۔ والد نے کہا کہ وہ اپنے بیٹے کی حمایت میں بھی اپنا سر منڈوائے گا۔


انہوں نے پوچھا کہ عملہ کا احترام کریں جب وہ دونوں اپنے منڈلے سروں کے ساتھ ناشتے میں آئے تھے۔


منیجر نے والد کو یقین دلایا کہ وہ تمام عملے کو آگاہ کرے گا اور وہ مناسب برتاؤ کریں گے۔


اگلی صبح باپ بیٹا ناشتے کے لئے ریستوراں میں داخل ہوئے۔ وہاں انہوں نے چار مرد ریستوران کے عملے کو دیکھا کہ وہ اپنے ڈیوٹی پر حاضر تھے ، بالکل عموما، ، تمام مونڈھے ہوئے سر۔


اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ آپ کس کاروبار میں ہیں ، آپ لوگوں کی مدد کر سکتے ہیں اور آپ 

فرق کر سکتے ہیں۔

ایک امیر آدمی اور اس کا بیٹا

 

ایک امیر آدمی کا بیٹا کالج سے فارغ التحصیل تھا۔


مہینوں سے ، بیٹا اپنے والد سے نئی گاڑی مانگ رہا تھا ، یہ جان کر کہ اس کے والد کے پاس کافی رقم ہے۔


جب فارغ التحصیل کا دن آیا تو ، اس نوجوان کے والد نے اسے مطالعہ کے لئے بلایا۔ والد نے اسے ایک لپیٹا ہوا تحفہ دیا اور اس کامیابی پر اس کے گریجویشن ہونے والے نئے کو مبارکباد پیش کی۔


مایوس نظر آتے ہوئے ، بیٹے نے ایک خوبصورت ، چمڑے کی پابند جریدہ تلاش کرنے کے لئے تحفہ کھولا ، جس میں اس نوجوان کا نام ڈھانپ دیا ہوا تھا۔ اس نے غصے سے آواز اٹھائی ، جریدے کو نیچے پھینک دیا اور باہر نکل آیا۔


اس نوجوان نے گریجویشن کے دن سے اپنے والد کو نہیں دیکھا تھا۔ وہ کامیاب ہوگیا اور ایک خوبصورت گھر اور کنبہ کے ساتھ اپنے والد کی طرح دولت مند تھا۔ اسے احساس ہوا کہ اس کے والد کی عمر بڑھ رہی ہے اور ہوسکتا ہے کہ ان کے پیچھے ماضی ڈال دیا جائے۔


تب ہی ، اسے پیغام ملا کہ اس کے والد گزر چکے ہیں ، اور اسے اس جائداد کی دیکھ بھال کے لئے گھر واپس جانا پڑا۔


جب غم زدہ بیٹا افسوس کے ساتھ گھر لوٹا تو اس نے اپنے والد کے اہم کاغذات کے ذریعے تلاش کرنا شروع کیا اور دیکھا کہ ابھی بھی نیا جریدہ ، جس طرح اس نے اسے چھوڑ دیا تھا۔


اس نے اسے کھولا ، اور صفحات پر پھسلتے ہی اس کی گاڑی کی چابی جریدے کے عقب سے گرا۔


ایک ڈیلر ٹیگ اس کلید کے ساتھ منسلک تھا جس میں لکھا گیا تھا "پورا معاوضہ ادا کیا گیا ہے۔ جہاں بھی یہ کار آپ کو لے جاتی ہے اسے ہمیشہ یاد رکھنے کے ل it اس کے بارے میں لکھیں۔ پیار ، والد"


اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ آپ کیا توقع کرتے ہیں ، آپ کو جو دیا جاتا ہے اس کا شکر گزار ہوں۔ یہ آپ کے خیال سے کہیں زیادہ نعمت ک

ا باعث ہوسکتا ہے۔




ایک سچا خادم

    ایک بادشاہ کے پاس غلاموں کی ایک بڑی تعداد تھی۔ ان میں سے ایک بہت ہی سیاہ فام تھا۔ وہ بادشاہ سے سچ تھا۔ چنانچہ ، بادشاہ اس سے بے حد پیار کرتا تھا۔


ایک دن بادشاہ اونٹ پر نکل گیا۔ کچھ غلام بادشاہ کے سامنے چل پڑے۔ دوسرے بادشاہ کے پیچھے چلے گئے۔ کالی غلام اپنے گھوڑے پر سوار تھا۔ اس کے آقا - کنگ۔


بادشاہ کے پاس ایک ڈبہ تھا۔ اس میں موتی تھے۔ راستے میں ایک تنگ گلی میں ڈبہ نیچے گر گیا۔ اس کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے۔ موتی زمین پر لپٹے۔


بادشاہ نے اپنے بندوں سے کہا۔ “جا کر موتی لے لو۔ "میں ان کو مزید نہیں چاہتا۔" بادشاہ نے کہا۔


غلاموں نے بھاگ کر موتی جمع کیے۔ وہ وہ موتی لے گئے۔ سیاہ فام غلام اپنی جگہ نہیں چھوڑا۔


وہ اپنے آقا کے شانہ بشانہ تھا۔ اس نے اپنے آقا کی حفاظت کی۔ اس نے اپنے آقا کی جان کی پرواہ کی۔ اسے آقا کے موتیوں کی پرواہ نہیں تھی۔ وہ سچا بندہ تھا۔


بادشاہ نے نوکر کے روی attitudeہ کا مشاہدہ کیا اور اسے بہت 

سے تحائف دیئے۔

ایک عقلمند ہرن اور بزدل شیر

 : 

پہاڑ کے چاروں طرف ایک گھنا جنگل تھا۔ جنگل میں کئی طرح کے جانور رہتے تھے۔ ایک ہرن اپنے دو جوانوں کے ساتھ گھاس اور پتے کھا رہا تھا۔ جوان خوشی خوشی پھرتے پھرتے یہاں۔ ہرن اس کے چاہنے والوں کے پیچھے آگیا۔ نوجوان ایک غار میں داخل ہوئے۔ ہرن خوفزدہ تھا۔ یہ شیر کا غار تھا۔ پوری غار میں مردہ جانوروں کی ہڈیاں تھیں۔ خوش قسمتی سے ، شیر اس وقت غار کے اندر نہیں تھا۔


ہرن اپنے جوانوں کو غار سے باہر لے جانے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس وقت اس نے ایک تیز چیخ سنائی دی۔ اس نے فاصلے پر شیر کو دیکھا۔ شیر غار کی طرف آرہا تھا۔ غار سے باہر جانا اب خطرناک تھا۔ وہ ایک منصوبہ سوچتی ہے۔ شیر غار کے قریب آچکا تھا۔ ہرن نے آواز اٹھائی اور چیخا ، "میرے ہرن چھوٹے بچے نہیں روتے۔ میں تمہیں کھانے کے ل a ایک شیر کو پکڑ لوں گا۔ آپ اچھا کھانا کھا سکتے ہو۔ "


شیر نے یہ الفاظ سنے۔ وہ پریشان تھا۔ اس نے اپنے آپ سے کہا ، "غار سے ایسی عجیب آواز کس کی ہے؟ مجھے پکڑنے کے لئے ایک خطرناک جانور اندر رہ رہا ہے۔ میں موت سے بچنے کے لئے بھاگ جاؤں گا۔ "


یہ کہتے ہوئے ، شیر جتنی جلدی ہو سکے وہاں سے بھاگنے لگا۔


ایک گیدڑ نے بھاگتے ہوئے شیر کو دیکھا۔ "آپ بڑے خوف سے کیوں بھاگ رہے ہیں؟" گیدڑ نے پوچھا۔ شیر نے کہا ، "میرے دوست ، ایک طاقتور اور سخت جانور میری غار میں رہنے آیا ہے۔ نوجوان شیر کو کھانے کے ل for پکار رہے ہیں۔ ماں وعدہ کر رہی ہے ان کے ل a شیر کو پکڑنا۔ لہذا ، میں بڑے خوف سے بھاگ رہا ہوں۔ "


ہوشیار گیدڑ اب یقینی ہوگیا تھا۔ شیر بزدل تھا۔ اس نے شیر سے کہا۔ "خوفزدہ نہ ہوں. کوئی جانور شیر سے تیز یا مضبوط نہیں ہے۔ آئیے ہم مل کر اس کا پتہ لگائیں۔ "


لیکن شیر نے کہا ، "میں موقع نہیں لینا چاہتا ہوں۔ آپ بھاگ سکتے ہیں۔ میں مرنے کے لئے تنہا رہ جاؤں گا۔ تو ، میں آپ کے ساتھ نہیں آؤں گا۔ "


گیدڑ نے کہا ، "مجھ پر اعتماد کرو۔ ہمیں اپنے دم ایک ساتھ مل کر بتائیں۔ تب میں آپ کو چھوڑ نہیں پاؤں گا۔ "


شیر اس تجویز پر راضی نہیں ہوا۔ گیدڑ نے اپنی دم ایک گرہ میں باندھ دی۔ اب وہ ایک ساتھ غار کی طرف چل پڑے۔


ہرن نے گانٹھ اور شیر کو ایک ساتھ ہوتے ہوئے دیکھا۔ اس نے پھر آواز اٹھائی۔ اس نے غار کے اندر کھڑے اپنے بچوں کی طرف چیخا ، "میرے پیارے بچو! اب دیکھو گیدڑ نے ہمارے لئے ایک شیر کو پکڑا ہے۔ اس نے شیر کی دم کو اپنی دم سے باندھ دیا ہے۔ یہ شیر کو فرار ہونے سے روکنے کے لئے ہے۔ ہمارے کھانے کے لئے آپ کے پاس جلد ہی شیر ہوگا۔ "


شیر نے یہ سنا۔ وہ چونک گیا۔ اسے اب یقین تھا۔ گیدڑ نے اسے دھوکہ دیا۔ تو ، شیر نے اپنے غار کے اندر کھڑے خوفناک جانور سے فرار ہونے کا فیصلہ کیا۔ اس نے دوڑنا شروع کیا۔ وہ گیدڑ کے بارے میں بھول گیا تھا۔ اس نے گیدڑ کو پتھروں اور کانٹوں کے اوپر گھسیٹا۔ پاگل فرار میں گیدڑ دو پتھروں کے درمیان پکڑا گیا۔ شیر نے اپنی پوری طاقت سے کھینچا۔ اس کی دم کٹ گئی۔ اس واقعے میں گانٹھ مارا گیا تھا۔ دم سے کم شیر جنگل کے کسی اور حصے کی طرف بھاگا۔


ہرن اور اس کے جوان شیر کے غار سے چلے گئے۔ وہ اپنے ریوڑ میں بحفاظت شامل ہوگئے۔


ذہانت اور ذہانت کی موجودگی خطرناک حالات سے بچ سکتی ہے۔


Show

یہ قصہ کل رات کا

یہ قصہ کل رات ہی سنا ہے جس نے سنایا ان ہی کی زبانی بیان کر رہا ہوں  نیو کراچی شفیق موڑ کے پاس 2001 میں ہم نے ایک کرایہ کی جگہ پر نیو فیکٹری ...

Popular posts